اسلام آباد (سکندر شاہین + نیشن رپورٹ) ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے سکیورٹی صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیا اور امن کے حوالے سے اہم فیصلے کئے۔ ذرائع کے مطابق فوجی قیادت کی طرف سے حکومت پر واضح کیا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ تحریک طالبان کے حملہ کرنے والے گروپوں کے خلاف کارروائی کے بغیر حملے رکنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اور جو حملہ آور گروپ مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں انہیں الگ کرنا ہو گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں تبدیل آ سکتی ہے دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شدت پسندوں کو حملے کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی اور مذاکرات اور حملے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ذرائع نے نیشن کو بتایا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم سے مل کر ان کو سکیورٹی صورتحال سے آگاہ کرنے کے ساتھ شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اس حوالے سے وزیراطلاعات پرویزرشید سے رابطہ کیا تو انہوں نے ملاقات کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم ان کا کہنا تھا حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت دیگر آپشن پر بھی غور کر رہی ہے وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو یہ بڑی افسوسناک بات ہو گی تاہم حکومت کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ ہم ہر قیمت پر ملک میں امن قائم کریں گے چاہے اس کے لئے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے لیکن ہم دوسرے آپشنز پر پہلے آپشن کے بعد ہی غور کریں گے۔ انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کا مہمند ایجنسی کا گروہ مذاکرات کے خلاف ہے اور ان کو مذاکراتی عمل سے الگ کرنا ضروری ہے اس حوالے سے کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی طے ہوا تھا کہ مذاکرات کے دوران کارروائیاں بند رہیں گی تاہم شدت پسندوں کی طرف سے کارروائیوں پر جوابی کارروائی کی جائے گی۔