اسلام آباد (ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) سابق صدر مشرف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں پیش ہوگئے تاہم عدالت نے وکلاء صفائی کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ملزم پر فرد جرم موخر کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی ہے جبکہ عدالتی دائرہ اختیار پر درخواست سمیت دیگر درخواستوں کا فیصلہ جمعہ کو سنایا جائے گا۔ عدالت نے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ عدالت جمعہ کے روز دائرہ اختیار کے بارے میں درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے بعد پرویز مشرف کی پیشی کے بارے میں سمن جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ تک عدالت میں پیشی سے استثنیٰ بھی دے دیا ہے۔ منگل کو خصوصی عدالت نے سماعت شروع کی تو اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے وکیل صفائی انور منصور سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل نے آج پیش ہونا تھا کیا وہ پیش ہورہے ہیں جس پر انور منصور نے کہا کہ وہ آج عدالت میں کسی بھی وقت پیش ہوجائینگے تاہم کچھ سکیورٹی معاملات کے باعث وقت کا تعین نہیں ہوسکا کہ وہ کس وقت عدالت میں پیش ہونگے۔ انور منصور نے استدعا کی کہ ان کے ساتھی وکیل خالد رانجھا کی عدم موجودگی میں انہیں غداری مقدمہ کا ٹرائل خصوصی عدالت سے فوجی عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر دلائل دینے کی اجازت دی جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ مذکورہ درخواست پر دلائل دے سکتے ہیں جس پر انور منصور نے مذکورہ درخواست پر جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت سویلین کیخلاف غداری مقدمہ کی سماعت تو کرسکتی ہے تاہم کسی ایسے ملزم کا ٹرائل نہیں کیا جاسکتا جس پر لگنے والا الزام اس وقت کا ہو جب وہ ملزم یونیفارم میں تھا۔ مسلح افواج اپنے طے کردہ قوانین کے تحت ہی کام کرتی ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی پر ان کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ آرٹیکل 6 آرٹیکل 245 سے مختلف ہے اس لئے سابق صدر کا ٹرائل صرف فوجی عدالت میں ہی ہوسکتا ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے انور منصور سے استفسار کیا کہ اگر سویلین صدر بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو تو کیا اس کا ٹرائل بھی فوجی عدالت میں ہوگا اس پر انور منصور نے کہا کہ وہ صرف اپنے موکل کے بارے میں دلائل دے رہے ہیں جو سویلین صدر نہیں بلکہ آرمی چیف کی حیثیت میں ان کے اٹھائے گئے اقدامات پر ان کیخلاف یہ غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ بعدازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ انور منصور نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججز کے تعصب کے بارے میں درخواست پر دلائل میں موقف اختیار کیا کہ اگر کسی ملزم کو عدالت سے انصاف کی توقع نہ ہو یا ججز کے بارے میں اس کے اعتراضات ہوں تو ایسی صورت میں مقدمہ کی سماعت نہیں ہوسکتی۔ اس موقع پر انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ ان کے موکل پرویز مشرف کا قافلہ تیار ہے اور وہ عدالت آنا چاہتے ہیں تاہم ایس پی انہیں لینے کیلئے تیار نہیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی کیلئے 11سو جوان روٹس پر لگائے گئے ہیں ملزم پیش ہونے میں سنجیدہ نہیں وہ کسی کی تحویل میں نہیں بلکہ آزاد آدمی ہے۔ اس پر انور منصور نے عدالت سے استدعا کی کہ کسی ذریعے سے وفاقی پولیس کو ہدایت جاری کی جائے کہ وہ قافلے کو اپنی تحویل میں لیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری مبارک عدالت میں موجود ہیں لہذا عدالت انہیں ہدایت دے سکتی ہے جس پر عدالت نے جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ پرویز مشرف کے قافلے کو تحویل میں لینے کے انتظامات کئے جائیں اس کے بعد انور منصور نے مذکورہ درخواست پر دلائل دوبارہ شروع کئے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ ملزم پرویز مشرف کو پولیس کی تحویل میں دینے کیلئے تیار نہیں حالانکہ وہاں پنجاب پولیس، وزارت داخلہ اور وفاقی پولیس کی ہائی کمان موجود ہے لہذا کمانڈنٹ اے ایف آئی سی کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ قافلے کی کمان پولیس کے حوالے کریں۔ جس پر فیصل عرب نے رجسٹرار خصوصی عدالت کو حکم دیا کہ وہ وزارت داخلہ کے حکام کے ذریعے کمانڈنٹ اے ایف آئی سی سے بات کریں کہ قافلے کی کمان پولیس کے حوالے کی جائے۔ اس موقع پر وکیل صفائی احمد رضا قصوری نے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوجائینگے مگر عدالت نے ابھی تک دائرہ اختیار کے بارے میں ملزم کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ نہیں کیا لہذا میری عدالت سے استدعا ہے کہ غداری مقدمہ کی سماعت بارے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق پہلے فیصلہ کیا جائے اور اس کے بعد باقی سماعت کی جائے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی کا موقف درست ہے عدالت درخواست نمبر 06/2013 پر پہلے فیصلہ دے گی تاکہ عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں فیصلہ سامنے آسکے جس کے بعد عدالت نے آدھے گھنٹے کیلئے مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔ بعد ازاں ایک بجے کے بعد دوران وقفہ پرویز مشرف اپنے ضامن راشد قریشی کے ساتھ عدالت میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد خصوصی عدالت کے جج صاحبان کے آنے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے ساتھ مشرف عدالت میں موجود ہیں۔ انور منصور نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں درخواست پر فیصلہ ہونے تک پرویز مشرف پر فرد جرم عائد نہ کی جائے اور گزشتہ سماعت پر بھی عدالت نے کہا تھا کہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوکر استدعا کریں تو زیر سماعت درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی اور عدالت میں پیشی سے بھی استثنیٰ دیا جائے گا جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق ملزم کے پیش ہونے کی صورت میں پہلی تاریخ پر ان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے یا چارج پڑھ کر سنایا جاتا ہے باقی اعتراضات کے دور ہونے تک چارج فریم نہیں کیا جاتا جس پر احمد رضا قصوری نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کا موکل عدالت میں پیش ہوگیا ہے دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ سے قبل چارج فریم نہ کیا جائے۔ اس موقع پر اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے چارج فریم نہ کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کا تقاضا ہے کہ خصوصی عدالت کا حکم نامہ اور سب سیکشن 2 اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ملزم پر فوری طور پر فرد جرم عائد کی جائے یا کم از کم چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جائے پرویز مشرف ملزم ہونے کے ساتھ ساتھ اہم شخصیت ہیں جس کو عدالت میں آنے میں تقریباً دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگا ہے۔ انہوں نے عدالت کے چوبیس دسمبر اور یکم جنوری کے فیصلے بھی پڑھ کر سنائے اور وکلاء صفائی کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم پر فوری طور پر فرد جرم عائد کی جائے بعد ازاں عدالت نے فریقین کے وکلاء کو سننے کے بعد حکم جاری کیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوگئے ہیں تاہم وکلاء صفائی اور ملزم کی جانب سے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست اور اعتراضات پر فیصلہ آنے تک ملزم پر فرد جرم عائد نہیں کی جاتی۔ سابق صدر 22 سماعتوں کے بعد عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ نجی ٹی وی کے مطابق پرویز مشرف کو ہسپتال انتظامیہ نے رخصت نہیں دی تو وہ ہسپتال کے کاغذات پر خود دستخط کر کے اپنے رسک پر عدالت کے لئے روانہ ہوئے۔ 17 گاڑیوں پر مشتمل پرویز مشرف کا قافلہ جب خصوصی عدالت پہنچا تو عدالت کے باہر انہیں اپنے چند حامی بھی نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ اس موقع پر آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے خصوصی عدالت کے راستے کے دونوں اطراف ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔