پیر کے روز کیو لری گرائونڈ لاہور میں ایک فوجی افسر کا جنازہ اٹھا، اس میں لاہور کے کور کمانڈر اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے بھی شرکت کی، اس شہید فوجی افسر کو خانیوال میں دہشت گردوںنے نشانہ بنایا۔
رانا ثنااللہ نے اسی روز یہ دعوی کیا کہ پنجاب میں کہیں طالبان کا وجود نہیں۔ رانا صاحب اگر اپنی راجدھانی کے نقشے پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ خانیوال اور لاہور دونوں پنجاب میں واقع ہیں۔کبوتر اگر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے یا شتر مرخ خطرے کو بھانپ کر اپنی چونچ ریت میں دھنسا لے تو کیا خطرے کا وجود مٹ جائے گا، رانا ثنا اللہ کو اس سے زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، مگرایک بات انہیں اور بتا تا چلوں کہ کامرہ پر آخری حملے میں سیب طیارے کو تباہ کیا گیا تو اس میں ایک دہشت گرد کا تعلق میرے علاقے گنڈا سنگھ والہ کے نواحی گائوں سے تھا،یہ گائوں لاہور کے جنوب میں صرف پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ صرف آدھ گھنٹے کی مسافت پر۔
اسی روز یہ اندوہناک خبر بھی آئی کہ طالبان نے پاک فوج کے دو درجن مغوی اہل کاروں کو ذبح کر دیا ہے۔
رانا ثناا للہ جس حکومت کا حصہ ہیں، اس کے سربراہ اس قدر مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کہ وہ چین کے دورے پر معمول کے مطابق روانہ ہو گئے حالانکہ ان کے بڑے بھائی جو وفاقی حکومت کے سربراہ ہیں ، انہوںنے فوجی اہل کاروں کی شہادت کے غم میں کراچی کا دورہ منسوخ کر دیا۔مگر یہ کیفیت صرف ایک روز تک قائم رہ سکی، اگلے دن انہوںنے اپنی نامزد کمیٹی کو ہدائت کی کہ وہ امن مذاکرات کا سلسہ جاری رکھے جبکہ قوم طبل جنگ بجنے کا انتظار کر رہی تھی ۔
فوجی آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بڑا مشکل ہے۔ اس کے حق میں بھی دلائل دیئے جاتے ہیں اور مخالفت میں بھی۔میاں نواز شریف کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ وہ آپریشن کا حکم بمشکل ہی دیں گے کیونکہ آپریشن کے نتیجے میں ان کو ذاتی طور پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، سو قوم کا نقصان ہوتا رہے، مسلح افواج کے اہل کاروں کی زندگی دائو پر لگی رہے ، وزیر اعظم ذاتی نقصان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔
محب وطن طبقے دہشت گردی سے نجات پانے کے لئے بہر صورت سخت گیر فوجی ا ٓپریشن کے حق میں ہیں۔ شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے، یہ کہنا تھا سلطان میسور کا اور انہوںنے اس پر عمل کر دکھایا۔مریں گے یا ماردیں گے، سسک سسک کر نہیں مریں گے۔ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال بھی ہے جس نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی، اس سری لنکا کی فوج کو دہشت گردی سے لڑنے کی ٹریننگ ہماری فوج نے دی، جو فوج دوسروں کو ٹریننگ دے سکتی ہے، اپنے ہاں بھی یقینی طور پر کامیاب آپریشن کر سکتی ہے۔مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔کیا یہ سارے اصول صرف بیت بازی کے لئے ہیں۔نہیں ، ہم وہ قوم ہیں جسے قائد اعظم نے مشکل تریں حالات میں ایک آزاد مملکت لے کر دی۔ہم وہی قوم ہیں جس کے ایک اور قائد نے کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے ، ایٹم بم بنائیں گے اور ہم نے یہ بم بنا کر دکھا دیا،یہ وہی قوم ہے جس کے قائد اعظم ثانی نے تما م تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود ایٹمی دھماکے کر دکھائے، اب قائد تو وہی ہے، اس کے اندر حوصلہ بھی وہی چاہئے ، ہر ناممکن کام ممکن ہو جائے گا۔
یہی وہ منطق ہے جس کی بنیاد پر محب وطن حلقے صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ فوجی آپریشن ناگزیر ہو چکا، نوائے وقت کا ادارتی تبصرہ ہمارے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے۔
فوجی آپریشن کے حق میں امریکہ بھی ہے، بھارت بھی ہے، خود طالبان بھی ہیں اور ہمارا طالبان میڈیا بھی ہے۔طالبان میڈیا وہ ہے جو طالبان کا حامی ہے،مگر بظاہر ہمیں غیرت کاسبق پڑھا کر کہہ رہا ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا۔امریکہ اور بھارت کی خواہش ہے کہ پاک فوج اندرونی کشمکش میں کمزور ہو کر رہ جائے،اس کا ڈنگ مر جائے،ان غیر ملکی قوتوں کو معلوم ہے کہ فوجی آپریشن سے قوم میں تفرقہ پھیلے گا۔اکہتر میں تو چند لوگ تھے جنہوں ے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی اور انہیں بنگلہ دیش کی حکومت سے تمغے مل رہے ہیں۔بھٹو نے فوجی آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بچ گیا، جماعت اسلامی نے اس فوجی ا ٓپریشن میں فوج کا ساتھ دیا تھا اور اب اس کے لوگ بنگلہ دیش میں پھانسی بھگت رہے ہیں۔مگر آج ہماری جماعت اسلامی گوڈے گوڈے طالبان کے عشق میںڈوبی ہوئی ہے۔فوجی آپریشن کا سن کر وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے۔
سول سوسائٹی میں طالبان کے اور بھی ہمدرد موجود ہیں ، اکثر مذہبی جماعتیں، تحریک انصاف اور ہر قسم کی جے یو آئی، میڈیا کابڑا حصہ ۔ امریکہ اور بھارت کی کوشش ہے کہ پاک فوج آپریشن میں کودے اور ملک کے اندر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے، اس طرح دنیا کی بہترین لڑاکا اور پروفیشنل فوج کے پر کٹ جائیں گے، امریکہ اور بھارت کو اس گھڑی کا بیتابی سے انتظار ہے۔طالبان میڈیا ہر دم اکسا رہا ہے کہ فوج کل کے بجائے آج ہی آپریشن کاا ٓغاز کرے، یہ میڈیا لال مسجد کی تاریخ دہرائے گا جب پہلے تو فوج کو، کوسا گیا کہ اس کی ناک تلے مسجد میں اسلحے کا ڈھیر لگ گیا، کبھی حکومتی رٹ کا طعنہ دیا گیا اور جب فوج نے آپریشن کیا تو معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کے نوحے پڑھے جانے لگے۔یہی کچھ سوات کی شورش پر میڈیا نے کیا، پہلے تو یہی طعنے کہ حکومت اور فوج بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کی رٹ کو چیلنج کیا جارہا ہے،حکومت اور فوج نے خاموش تماشائی کا کردار اپنا لیا ہے مگر جب فوج نے آپریشن کیا اور چند ماہ کے اندر امن امان قائم کر دکھایا تو برسوں گزر جانے کے بعد بھی طالبان میڈیا ،ظلم کی داستانیں دہرا رہا ہے۔ فوج کے مظالم کے قصے تراش رہا ہے۔اب اگر فوج نے فاٹا میں فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کر دیا تو اس میڈیا کے ہر آن بدلتے تیور دیکھنے کے لائق ہوں گے۔
اور فوج، حکومت وقت کی طرف دیکھ رہی ہے ، حکومت گو مگو کی کیفیت میں ہے۔وزیر اعظم کی پارٹی کچھ اور چاہتی ہے، مگر وزیر اعظم کچھ اور فیصلہ کرتے ہیں ، وہ جو کہتے ہیں، کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں ، وہ کہتے نہیں۔آخر تین بار حکومت میں رہنے کا تجربہ کہیں تو کام آئے گا نا!
دنیا میںکون سا ملک ہے جس نے دہشت گردی کے مسئلے پر سمجھوتہ کیا ہو۔بھارت میں کشمیر ی عوام حقیقی معنوں میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیںلیکن بھارت نے ایک محدود سے علاقے میں آٹھ لاکھ فوج گھسیڑ دی ہے، بھارت کے درجنوں صوبوںمیں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارت نے کسی کے ساتھ تھک ہار کر مذاکرات کا رستہ اختیار نہیں کیا۔
کیا امن صرف پاکستان کو چاہئے اوروہ بھی بھیک کے طور پر۔