علّامہ طاہر اُلقادری کے ”دِن پُورے ہو گئے ؟“

 قارئینِ کرام!آج19فروری ہے۔آج علّامہ طاہر اُلقادری63 برس کے ہوگئے ہیں اور 1993ءمیں قومی اخبارات میں شائع ہونے والے اُن کے بیان کے مطابق آج اُن کی زندگی کا آخری دِن ہے۔علّامہ القادری نے کہا تھا کہ” مجھے خواب میں سرکارِ دو عالم نے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپ کی عُمر کے برابر63 سال ہو گی “۔ اِس پر مَیں نے اُنہی دِنوںاُنہیں مخاطب کر کے کالم لِکھا تھاکہ ” علّامہ صاحب ! اگر آپ کو واقعی سرکارِ دو عالم نے یہ بشارت دی ہے تو ، آپ اپنے ساتھ ہر وقت، کلاشنکوف بردار سکیورٹی گارڈز کیوں رکھتے ہیں؟ کہ 63سال کی تو آپ کوزندگی کی گارنٹی مِل گئی ہے !“۔مَیں گذشتہ سال ستمبر میں نیو یارک گیا تو میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان نے " You Tube" پرعلّامہ طاہر اُلقادری کو سرکار ِ دو عالم کی بشارت بیان کرتے ہُوئے بھی دِکھایا۔13سِتمبر 2012ءکو مَیں نے ” نوائے وقت“ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں ” ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب“ کے عنوان سے۔علّامہ صاحب کے اِس بیان کو موضوع بنایا تھا۔
اِس سے پہلے4دسمبر2012ءکو اُنہوں نے کینیڈا سے سٹیلائٹ پر اسلام آباد کے چند سینئر صحافیوں سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ” مَیں 23 دسمبر کو لاہور میں مِینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ جلسہءعام سے خطاب کروں گا “۔ اپنے اِس اعلان کے بعد اُن کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر اپنی رنگین تصاویر کے ساتھ اشتہارات بھی جاری کرائے گئے۔ علّامہ طاہر اُلقادری نے خود کو ” شیخ اُلاسلام “ بھی قرار دِیا۔ اُن کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ؟ ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ مَیں نے 6دسمبر 2012ءکے ” سیاست نامہ“ میں لِکھا کہ ” طاہر اُلقادری صاحب کی تاریخِ پیدائش 19فروری 1951ءہے۔ 23 دسمبر کو اُن کی عُمر61 سال ،10ماہ اور4دِن ہو جائے گی یعنی بقول علّامہ صاحب اُن کی عُمر صِرف ایک سال ایک ماہ اور 26دِن رہ جائے گی۔ اگر سرکارِ دو عالم کی طرف سے (ڈاکٹر طاہر اُلقادری کو اُن کی) عُمر میں توسیع کی بشارت دی گئی تو الگ بات ہے“۔
23دسمبر2012ءکو ڈاکٹر طاہر اُلقادری نے لاہور میں جلسہ ءعام کا انعقاد کِیا جِس میں موصوف خود ہی میزبان اور خود ہی مہمانِ خصوصی تھے۔ اپنی تقریر دُھواں دار میں اُنہوںنے اعلان کِیا کہ ”اگر وفاقی حکومت نے 10جنوری 2013ءتک مُلک کے انتخابی نظام میں میری مرضی کے مطابق انقلابی تبدیلیاں نہ کیں تو مَیں 40لاکھ افراد کے لانگ مارچ کی قیادت کرتا ہُوا اسلام آباد پہنچوں گا اور وہاں عوامی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کروں گا اور سارے فیصلے عوامی پارلیمنٹ کرے گی“ اِس پر 25 دسمبر 2013ءکو ” نوائے وقت“ میں میرا کالم شائع ہُوا۔ مَیں نے پھر لِکھا کہ ” 23دسمبر2013ءکو علّامہ القادری کی عُمر کی باقی مُدّت ایک سال ایک ماہ اور 26دِن یا 27دِن رہ گئی ہے “۔ القادری صاحب کا جلسہ ءعام اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اُن کے مذہبی ادارے ” تحریکِ منہاج اُلقرآن “ کے تحت ہُوا۔ 14جنوری2013ءکو اسلام آباد کے ڈی چوک میں بم پروف کنٹینر میں تشریف فرما ہو کر اُنہوںنے سخت سردی میں بیٹھے ہزاروں چاہنے والوں کے ” مِلین مارچ“ سے خطاب کرتے ہُوئے دھمکی دی کہ ” اگر صدر زرداری نے کل (15جنوری) کو 11بجے تک قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کِیں تو عوامی پارلیمنٹ ( شُرکائے لانگ مارچ) خود فیصلہ کرے گی اور وہ فیصلے میں سُناﺅں گا “ لیکن 17جنوری کو القادری صاحب نے وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کے نمائندوں ( پیپلز پارٹی) مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی کے بااختیار قائدین اور فاٹا کے سینیٹر عباس آفریدی کے ساتھ معاہدہ کِیا۔ معاہدے پر اُنہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین کی حیثیت سے دستخط کئے۔ اِس طرح موصوف نے بڑی فراست سے اپنے ہاتھوں سے دفن کی گئی پاکستان عوامی تحریک کو زندہ کر لِیا۔ معاہدہ کرنے سے قبل4دِن تک لانگ مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہُوئے ڈاکٹر طاہر اُلقادری نے صدر زرداری ،وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور وفاقی حکومت میں شامل دوسرے لوگوں کو ”بے شرمو،بے غیرتو، یزیدِیواور شَیطانو“ تک کہہ دِیا تھا۔
علّامہ القادری نے اعلان کیا کہ مَیں اور میرے خاندان کے لوگ انتخابات میں حِصّہ نہیں لیں گے“۔ ظاہر ہے کہ انتخابات میں حِصّہ لیتے تو اُنہیں کینیڈا کی شہریت چھوڑنا پڑتی۔ علّامہ القادری نے الیکشن کمشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے۔ یعنی عام انتخابات ملتوی کرانے کے لئے سُپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن موصوف اپنی کینیڈین شہریت کی وجہ سے مقدمہ ہار گئے۔ پھر پاکستان عوامی تحریک نے بھی عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دِیا۔ 19فروری 2013ءکو ” نوائے وقت“ میں شائع ہونے والے میرے کالم کا عنوان تھا ” علّامہ طاہر اُلقادری کی آخری سالگرہ “۔ 19فروری 2013ءکوموصوف کی عُمر 62سال ہو گئی تھی۔ آج 19فروری 2014ءکا دِن ہے ( اپنے بیان اور بقول اُن کے سرکارِ دو عالم کی بشارت کے مطابق) علّامہ طاہر اُلقادری کی زندگی کا آخری دِن۔
چار پانچ روز قبل مجھے گجرات سے جناب محمد جمیل اعظمی کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ” اھلسُنّت “کا ستمبر 2012ءکا شمارہ موصول ہُوا پھر محمد جمیل اعظمی صاحب کا مُجھے فون بھی آیا۔ میں حیران رہ گیا کہ میرا حساب تو غلط نکلا۔ ماہنامہ”اھلسُنّت“ کے متذکرہ شمارے میں میرا 14 ستمبر 2013 کو ”نوائے وقت “ میں شائع ہونے والا پوراکالم نقل کیا گیا ہے اور اُس پر ادارہ ماہنامہ”اھلسُنّت“ کا تبصرہ بھی شامل ہے۔جِس میںلِکھا گیا تھا کہ ” قمری اسلامی حساب“ سے ڈاکٹر طاہر اُلقادری کی 63سال عُمر کے دِن کب کے پورے ہو چُکے ہیں۔ لِکھا ہے کہ ڈاکٹر طاہر اُلقادری صاحب کی عُمر 61برس 9ماہ سے زائد ہو چکی ہے۔اور یہ عُمر شمسی یعنی انگریزی اور بکرمی حساب سے ہے جب کہ نبی کریم کی عُمرِ مبارک قمری اسلامی حساب سے 63برس ہُوئی۔ لامحالہ جب آپ نے ڈاکٹر صاحب کی عُمر اپنی عُمر کے برابر قرار دی ہو گی تو وہ بھی قمری حساب سے ہوگی نہ کہ شمسی سے۔ سبھی جانتے ہیں کہ قمری سال شمسی سال سے دس دِن چھوٹا ہوتا ہے۔ اگر اُن 61سالوں کے ہر سال میں سے 10دِن کم کریں تو 610دِن بنتے ہیںپھر اوپر کے 7 ماہ ہیں۔ ان کے دن شمار کریں تو مارچ سے ستمبر تک تین ماہ 30۔30دِن کے ہیں اور چار ماہ 31۔ 31دِن کے ،یوں 7ماہ کے کل 214دِن بنتے ہیں۔ 61 سال بحساب شمسی سے قمری 61سال نکالیں تو 610 دِن بچ گئے۔ مزید سات ماہ بحساب انگریزی 214دِن بنے اور قمری کچھ زائد بنتے ہیں ان کو جمع کیا۔214+610تو کُل دِن 824بنے اب ان کو قمری سال میں تبدیل کرنے کے لئے355سے تقسیم کرتے ہیں کیونکہ قمری سال 355دِن کا ہوتا ہے۔ تقسیم کِیا توجواب آیا: 355/824 = 2 سال 114دِن۔ اب بحساب قمری ڈاکٹرطاہر اُلقادری صاحب کی عُمر 61+ 2 = 63سال اور مزید 114دِن کم و بیش بن جاتے ہیں۔ وہ بشارت والے 63سال کب کے پورے ہو چکے ہیں۔ تو صاحبو! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قمری سال کے مطابق تو ستمبر 2012ءمیں علّامہ القادری کی عُمر 63سے زیادہ ہو گئی تھی تو وہ اب تک کیسے زندہ ہیں۔کیا علّامہ طاہر اُلقادری نے سرکارِ دو عالم کی بشارت کے حوالے سے جھوٹا خواب سُنا کر عوام کا ہیرو اور پھر ”شیخ اُلاسلام“ بننے کا کارڈ کھیلا تھا؟

ای پیپر دی نیشن