پاکستانی بیچارے پہلے ہی دکھوں، پریشانیوں اور آزمائشوں میں پسے ہوئے ہیں۔ بجلی گیس تو آنکھ مچولی کا کھیل کھیلتی چلی آ رہی ہے۔ اب کبھی پٹرول غائب تو کبھی آٹا اور کبھی سبزیاں عوام الناس کی دسترس سے باہر ۔۔۔ اوپر سے ہمارے نیوز چینلز رہی سہی کسر نکال رہے ہیں۔ خبرنامہ دیکھنے سے قبل آیۃ الکرسی کا ورد کرنا پڑتا ہے۔ خدا خیر، خدا خیر کے سہارے اگر کبھی آغاز روئے دھوئے بغیر ہو جائے تو الحمدللہ مگر ایسے مواقع کم کم ہی میسر آتے ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ معاشرہ میں انتشار، جرائم اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ میڈیا کے لئے المناک واقعات کی کوریج سے صرفِ نظر برتنا ممکن نہیں ہے۔ رنج و الم کی منظرکشی کے مطابق کرنا ہی پڑتی ہے۔ ویسے ان مناظر کی تصویر کشی کے لئے چند برس قبل میڈیا کے کرتا دھرتا نے سر جوڑ کر ضابطہ اخلاق کے طور پر یہ طے کیا تھاکہ کیمرے کی آنکھ کے ذریعے ناظرین کو نہ تو انسانی خون کی ارزانی دکھائی جائے گی اور نہ زخمیوں کو تڑپتے کراہتے دکھایا جائے گا تاکہ دیکھنے والے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہوتے ہیں خوف و ہراس اور سراسمیگی کا شکار نہ ہوں۔ خیر اس پر تو میڈیا کافی حد کنٹرول کیے ہوئے ہے تاہم میڈیا کی ذمہ داریاں اسی پر ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ انفارمیشن سوسائٹی کے اس دور میں میڈیا کے طاقتور کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میڈیا مایوس و دلبرداشتہ عوام میں زندگی کی نئی لہر دوڑا سکتا ہے، میڈیا بے سمت رواں دواں کاروانوں کو سیدھے راستے پر لا سکتا ہے۔ میڈیا خواب و غفلت میں کھوئے عوام کو بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میڈیا تعلیم اور ترغیب کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ یہ نتائج مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی بڑے سے بڑے معلم اور صالح کی وعظ و تلقین کی بجائے میڈیا اپنی نشریات کی بدولت عوام الناس میں Possivism اور Activism دونوں رجحانات کی تکمیل و تشکیل سے عہدہ برا ہو سکتا ہے۔ یہ کام شعوری اور لاشعوری دونوں طرح سے ہوتے اور ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں آجکل میڈیا عوام میں مایوسی، دل شکستگی، فرو ماندگی و بے چارگی اور یاسیّت کے پھیلائو میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے جس پر میڈیا کے ارباب اختیار کو ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے جس میں میڈیا کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا ۔
ہر چینل کو اپنے دائرہ کار اور وسعت کے مطابق خبروں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر چینل بین الاقوامی سکوپ کا حامل ہے تو اسے خبروں کی ترتیب میں انتہائی مقامی خبروں کو آخیر میں نشر کرنا چاہئے جبکہ مقامی یا سٹی نوعیت کے چینل کو وہی خبر شہ سرخی کے طور پر شامل کرنی چاہئے۔ میڈیا کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ ہمارے چینلز کو پاکستان میں بسنے والے ہی نہیں دیکھتے بلکہ اردو بولنے اور سمجھنے والے دنیا میں جہاں جہاں بھی بستے ہیں بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب سب دیکھتے ہیں بلکہ غیر ملکی نیوز ایجنسیاں بھی مانیٹرنگ کرتی ہیں جس سے امیج بلڈنگ کے زمرے میں پاکستان کا امیج انتہائی بھیانک اور انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک سکول کا بچہ (طالب علم) چلتی بس سے گر کر ہلاک ہو گیا۔ یقیناً یہ سانحہ والدین کے لئے قیامت خیز ہے۔ بچے کے عزیز و اقارب پر جو قیمت ٹوٹی اس کا اندازہ کوئی کیا کر سکے گا؟ میڈیا نے بھی اس کی کوریج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یقیناً خبر لینا اور دنیا میڈیا کا حق ہے مگر خبر دینے کے بہانے کیا میڈیا کو لوگوں کے گھروں میں بھی گھس جانے کا حق ہے؟ کوئی بھی ماں اپنے لختِ جگر کی یوں اچانک اور المناک ہلاکت پر روئے دھوئے گی نہیں تو اور کیا کرے گی؟ کسی ماں کے آنسوئوں کو پبلک کرنا کیا کسی کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں؟
ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بعض ڈرائیونگ یا تیز رفتاری کے باعث راہگیر یا طلبہ ہلاک ہو جاتے ہیں یا بعض اوقات طلبہ بھی چلتی بس پر سوار ہوتے ہوئے پائوں پھسل جانے پر گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں دونوں صورتوں میں المناک حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے اور نتیجتاً بس جلد دی جاتی ہے۔ اسی طرح سائیکل والا پیدل سے یا پیدل سائیکل والے سے ٹکرائے تو قصور سائیکل والے کا سمجھا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل اور سائیکل کی ٹکر میں قصور موٹر سائیکل والے کا اور کار اور موٹر سائیکل کے ٹکرائو میں ہمیشہ قصور وار گاڑی والا ہی سمجھا جاتا ہے چاہے موٹر سائیکل سوار بغیر پیچھے دیکھے دائیں یا بائیں ہی مُڑ جائے ہمیشہ عوام اور میڈیا گاڑی والے ہی کی دُھلائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال ایسے واقعات میں اور اوپر بیان کئے گئے واقعہ میں قصور کس کا تھا؟ اس کا فیصلہ تو پولیس کو شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا موضوع اس وقت ایسے وقت ایسے واقعات کے سرزد ہونے پر میڈیا کا کردار ہے جس کے لئے میڈیا کے ارباب بست و کشاد سے درخواست ہے کہ اپنے اپنے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کو دیکھنے کیلئے محض کیمرے ہی نہی دیں بلکہ انہیں دیکھنے کی نظر بھی عطا کریں۔ اگر ہم اپنی قوم کے اندر ہمیشہ خامیوں کے متلاشی رہیں گے تو ہمیں خامیاں ہی خامیاں نظر آئیں گی۔
الیکٹرانک میڈیا پر تکرار کے ساتھ خامیاں، خرابیاں اور اندوہناکیاں دکھانے سے ہماری آنے والی نسل کی ذہنی و جسمانی نشو و نما پر نہایت تشویشناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ نوں مجھے اپنی بیوی کے ساتھ لاہور کے ایک بازار میں خریداری کے لئے جانا پڑا جہاں کچھ عرصہ قبل ایک پلازے میں آگ بھڑک اُٹھی تھی اور کئی جانیں لقمۂ اجل بن گئی تھیں اور ٹی وی سکرین پر کچھ دن تک چیخ و پکار اور رونے دھونے کے مناظر نشر ہوتے رہے جنہیں سب کے ساتھ میرا آٹھ سالہ بیٹا بھی دیکھتا رہا۔ تین چار گھنٹے کی خریداری کے بعد جب ہم گھر لوٹے تو دیگر بہن بھائیوں سے معلوم ہوا کہ ہماری غیر موجودگی میں یہ بیٹا گھبرایا، سہما اور روتا رہا اور بہن بھائیوں سے کہتا رہا کہ بابا ماما اُسی بازار میں گئے ہیں جہاں آگ لگی تھی اُنہیں کہیں واپس آ جائیں۔ میڈیا ایسے واقعات کی رپورٹنگ ضرور کرے مگر اس خیال کے ساتھ کہ اسی رپورٹ کو بچے بھی دیکھ رہے ہیں۔