اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ میں پتوکی کی ہائوسنگ سوسائٹی فراڈ کیس میں ملزم امین کی عدم گرفتاری پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیئرمین نیب قمرالزمان چوہدری کو جھاڑ پلادی‘ ان کی معافی اور مزید وقت دینے کی استدعا مسترد کردی اور 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ نیب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی سی کیفیت ہے‘ آپ کا کوئی انتظامی کنٹرول نہیں ہے‘ اربوں روپے کے وسائل ہیں اور کام ایک فیصد بھی نہیں۔نیب کے اندرون خانہ حالات بھی افسوسناک ہیں‘ نیب کو کام ہم نے سکھانا ہے تو بتادیا کریں‘ ہم آپ کے افسران کو سکھادیا کریں گے۔چار سال گزرگئے مزید کتنا وقت دیں‘ دھمکیاں دینے کیلئے باقاعدہ ایک شخص مقرر کررکھا ہے‘ جس طرح سے نیب کام کررہا ہے اس سے معاملات نہیں چلیں گے‘ بطور جج مجھے بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں اس خوف سے لوگوں کیساتھ انصاف کرنا نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر فیاض نامی درخواست گزار ہمارے پاس نہ آتا تو نیب کے اندرونی حالات کا ہمیں کبھی پتہ ہی نہ چلتا۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس اقبال حمیدالرحمن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیئرمین نیب قمرالزمان نے معافی مانگ لی‘ معاملے کے حل کیلئے پیر تک مہلت مانگی جو عدالت نے مسترد کردی۔ جسٹس جواد نے چیئرمین نیب قمرالزمان سے کہا کہ ہم نے ضمنیوں کی کاپیاں کرالی ہیں یہ نیب کس طرح سے کام کررہا ہے اس طرح سے معاملہ نہیں چلے گا۔ ہم اس سے کیا اخذ کریں یہ تو حادثاتی طور پر ایسا ہوا ہے، آپ کے افسران نے اعلی عدلیہ کے ججز سے کہہ دیا ہے کہ ان کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ کیا تو ان کیخلاف کارروائی ہوگی۔ پنجاب پولیس نے تو اب کچھ نہ کچھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ پہلا مقدمہ نہیں ہے اندرونی طریقہ کار بھی درست نہیں ہے۔ نیب ہمارے ذمے لگادے کہ سب کام عدالت نے کرنے ہیں تو ہم بتاتے رہا کریں گے اور آپ کام کرتے رہا کریں گے۔ چیئرمین نیب قمرالزمان پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں معافی کا خواستگار ہوں عدالت کا اس مقدمے کی وجہ سے کافی قیمتی وقت ضائع ہوا ہے۔ آپ کا کہنا بجا ہے ادارے کے سربراہ کے طور پر ذمہ داری لیتا ہوں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ گیارہویں پیشی ہے کوئی پیشرفت ہوئی ہے یا نہیں آپ اصل معاملے کی طرف آئیں۔ آپ نے ایک شخص مقرر کررکھا ہے جو دھمکیاں ادھر سے ادھر پہنچاتا ہے۔ انہون نے چیئرمین نیب سے پوچھا کہ یہ اولکھ صاحب کون ہیں؟ بیرسٹر خرم نے بتایا کہ میں نے کبھی اس طرح کا کیس نہیں لیا۔ جب سے مقدمہ لیا ہے دھمکیاں مل رہی ہیں۔یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر نیب میں اس طرح کے حالات ہیں تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ پتہ کرکے بتائیں کہ ہوا کیا ہے؟ چیئرمین نیب نے کہا کہ ایمانداری سے کہنا چاہوں گا کہ جب سے میں نے چارج سنبھالا ہے کئی ایشوز ہیں۔ عملہ کم ہے اور دیگر مسائل بھی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ مسائل اسلئے ہیں کہ وسائل افسران پر خرچ کردئیے گئے ہیں آپ اپنا کام کریں تو مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ خرم کا موبائل فون ٹیپ کیا جارہا ہے۔ کل بتائیں‘ چیئرمین نیب نے پیر تک کا وقت مانگ لیا اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ آپ وقت نہ مانگیں بصورت دیگر ہم ایک گھنٹہ لگاتار سن کر معاملے کا فیصلہ کردیں گے۔نیب افسران کیخلاف آپ نے تادیبی کارروائی شروع کردی ہے، رپورٹ آئے گی تو آپ بری الذمہ ہوں گے، بصورت دیگر آپ کو خود آنا ہوگا۔ آپ کا کوئی انتظامی کنٹرول ہی نہیں ہے۔عدالت نے سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی۔