سعیدہ وارثی آئی بھی اور چلی بھی گئی۔ چند دنوں میں وہ لوٹ گئی۔ کہتے ہیں کہ وہ آئی نہ تھی بلائی گئی تھی۔ یہ دورہ کچھ کچھ سیاسی لگتا ہے مگر غیرسیاسی سرگرمی بھی دیکھنے میں آئی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سنا ہے اس نے خود خواہش کی ہے میں پروفیسروں اور نمائندہ طلبہ و طالبات سے ملنا چاہتی ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے یونیورسٹی میں وہ کشش لانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اب جو پاکستان آتا ہے وہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی جانا چاہتا ہے۔ برادرم شاہد قادر نے سعیدہ وارثی کو چند نمائندہ صحافیوں سے بھی ملوا دیا۔ مجھے بھی دعوت دی گئی مگر میں گوجرانوالہ رانا تنویر کے بیٹے کے ولیمے میں گیا ہوا تھا۔ برادرم ناصر اقبال خان اور محترم عظمت صاحب مجھے اغوا کر کے لے گئے۔ رانا نذیر کی محبت اور عزت کرنے کی عادت نے بہت لوگوں کو کھینچ لیا۔ برادرم خوشنود علی خان کو بھی دیکھا گیا۔ ایاز امیر تو ہمارے پاس بیٹھ گئے۔ اس خوبصورت آدمی سے گپ شپ لگی۔ ان کے جیسے سفید بال صرف میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کے تھے۔ وہ کراچی گئے تو دلفریب شاعر جون ایلیا نے کہا کہ منیر خان تیرے بال سفید ہو گئے۔ منیر نیازی نے جواب دیا کہ بچو جو مجھ پہ گزری ہے تجھ پر گزرتی تو تیرا خون سفید ہو جاتا۔
دروغ بر گردن راوی، سنا ہے کہ سعیدہ وارثی کو گورنر پنجاب بننے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف اور لاہور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف سے بھی ملی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کی صورت میں شعبہ امور طلبہ کی تقریب میں بہت زبردست تقریر کی اور شاہد قادر کے اہتمام میں صحافیوں سے ملاقات کی۔ یہ پریس کانفرنس نہیں تھی۔ مجیب الرحمن شامی سہیل وڑائچ چودھری غلام حسین اور ذوالفقار کے علاوہ بھی کچھ لوگ تھے۔
شعبہ امور طلبہ پنجاب یونیورسٹی میں وہ بہت خوب بولی۔ اس نے چودھری سرور کے لئے بہت کھل کر تعریف کی۔ چودھری سرور کے لئے شاہد قادرکی بلائی گئی محفل میں بھی بات ہوئی۔ سعیدہ نے کہا کہ وہ میرے انکل ہیں۔ میں ان کا احترام کرتی ہوں۔ انہوں نے برطانیہ میں بڑا مقام بنایا ہے۔ ایک سچے آدمی کی طرح ان کا تعارف عام ہوا ہے۔ وہ کردار والے آدمی ہیں۔ چودھری سرور کی بات ان کے منہ سے سابق گورنر کی طرح نکلی۔ چودھری سرور کی بات سعیدہ کے دل میں بہت زور کر رہی تھی۔ یہ شاید کوئی اشارہ تھا جسے صرف وہی سمجھتی تھی۔ چودھری سرور نے برطانوی شہریت چھوڑ دی۔ وہ وہاں کا سیاسی کلچر پاکستان میں لانے کے لئے تھوڑے سے بھی کامیاب ہو گئے تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔
مگر میری سیاست برطانیہ کے لئے ہے اور وہیں میرا سیاسی مستقبل ہے۔ لیکن یہ بات بہت نمایاں ہے کہ جو کچھ پاکستانی نژاد برطانیہ میں اپنی سیاسی حیثیت بناتا ہے وہ پاکستان کے لئے وابستگی اور گہری کر لیتا ہے۔ چودھری سرور تو پاکستان میں کچھ وقت گزار کر برطانیہ گئے۔ لارڈ نذیر بھی کشمیر اور پاکستان کے لئے ایک نسبت رکھتے ہےں۔ سعیدہ وارثی تو بہت نوجوان ہیں۔ ان کا پاکستان کے ساتھ ایسا تعلق بنتا بھی نہیں ہے مگر وہ پچھلی بار اپنے آبائی شہر گوجر خان میں بھی گئیں۔ وہاں رینٹل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی شاید ان سے ملاقات کی۔ وہ اگر کسی ملنے کی خواہش رکھتی ہوں گی تو وہ یقیناً صوفی دانشور احمد رفیق اختر ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان کی ملاقات ان سے ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی ہے۔ سعیدہ نے کسی دوسرے آدمی کا ذکر نہیں کیا۔ آخر چودھری سرور کا ذکر خاص طور پر کیوں کیا۔ برطانیہ میں پاکستان کی ساکھ بحال رکھنے کے لئے سعیدہ کے مشوروں اور مدد کی ضرورت ہو گی؟
سعیدہ وارثی نے پنجاب یونیورسٹی میں میرے دل کی بات کی جو میں کئی برسوں سے کر رہا ہوں۔ سعیدہ نے کہا کہ پاکستان میں سیاستدان لیڈر نہیں ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں کئی بار میں نے کہا کہ حکمران اور لیڈر میں بڑا فرق ہے۔ ہمارے سیاستدان حکمران بننا چاہتے ہیں۔ لیڈر بننے کا نہ وژن ان میں ہے نہ صلاحیت نہ امنگ ہے۔ لیڈر حکومت نہیں کرتا۔ قیادت کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت بڑا لیڈر قائداعظم ہے۔ کوئی انہیں سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ ہر کوئی قائداعظم بولتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سیاستدان چند ماہ بھی وزیر شذیر رہے تو وہ عمر بھر سابق وزیر رہتا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ منظور وٹو۔ صدر امریکہ ابراہام لنکن لیڈر تھے۔ وہ قتل ہو گئے۔ صدر نکسن کے نام کے ساتھ صدر ہٹا دیں تو وہ کچھ بھی نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں سیاست دان صرف حکمران ہونے کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔
سعیدہ نے بتایا کہ برطانیہ میں بھی عورت کے ناطے سے بڑی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ وہ پاکستان میں ہوتیں تو کبھی اس طرح کا نام نہ بن سکتیں۔ انہوں نے غزہ فلسطین کے معصوم بچوں کے لئے اسرائیل سے احتجاج کیا اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ہاں یہ ہمت ایک مرد وزیر شاہد خاقان عباسی کو نہیں ہوئی۔ وہ سعیدہ وارثی سے ملتے تو ان پہ کیا گزرتی؟ سید مودودی نے کہا تھا کہ صدر ایوب خان میں کوئی خصوصیت نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ مرد ہیں۔ مادر ملت لیڈر ہیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان کی سعیدہ وارثی کون ہو سکتی ہے۔ میں نے برجستہ کہا کہ مریم نواز میں یہ صلاحیت ہے۔ وہ کوشش کرے۔ اس نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے کے عدلیہ اور اپوزیشن کی مدد کی۔ سنا ہے آج کل نواز شریف مریم نواز سے مشورہ کرتے ہیں۔ یہ اچھا مشورہ نجانے کس نے نواز شریف کو دیا ہے۔ میں نواز شریف کا نقاد ہوں مگر میرے دل میں مریم نواز کے لئے اچھا خیال ہے۔ وہ ہماری توقعات کی تصویر بن جائے۔
سعیدہ وارثی کے لئے ایک اچھی محفل میں ڈاکٹر مجاہد کامران نے بہت دھڑلے سے بات کی۔ امریکہ اور دنیا کے چند مال دار خاندان دنیا پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ جہاں جہاں انہیں انرجی کے ذخائر نظر آتے ہیں وہ سب چراغ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالم اسلام کا دوسرا مسئلہ جہالت ہے۔ اور جدید تعلیم کے حصول میں مشکلات ہیں۔ ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں مگر ہمارا بہت برا حال ہے۔ کوئی ہے جو ہمیں ایک بہترین زندگی گزارنے کا کوئی منصوبہ دے سکے اور ہمارے سیاستدانوں کو کچھ سمجھا سکے۔