واشنگٹن (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا نائن الیون کے واقعہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امریکہ میں انسٹیٹیوٹ آف پیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نائن الیون کے اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم اب بھی 30 لاکھ مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہے ہیں۔ گذشتہ 13 سال میں پاکستان نے کئی نائن الیون دیکھے۔ پاکستان مکمل طور پر پُرامن ملک سے جنگی علاقے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پاکستان پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی اب دی جا رہی ہے۔ پاکستان جس طرح اب متحد ہے، گذشتہ 13 سال میں نہیں تھا۔ چودھری نثار نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت جس طرح دہشت گردی کے خلاف آج باہم متحد ہے پہلے کبھی نہیں تھی ملک سے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی ذہنیت ختم کر دی جائیگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس علاقے کو تنہا چھوڑنے کی غلطی دوبارہ نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں پر حملے کے بعد پوری قوم، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور سکیورٹی فورسز نے اس ’’بیل‘‘ کے سینگ تھامنے کا فیصلہ کیا ہے جس طرح دہشت گردی سے نمٹنے پر اب توجہ دی پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس حوالے سے انہوں نے آپریشن ضرب عضب سمیت متعدد اقدامات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے افغانستان میں اقتدار کی منتقلی اور داعش کے خلاف اقدامات کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں 10ہزار امریکی فوجی رہ جائینگے جو صرف دفاعی اقدامات تک محدود ہونگے۔ اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ علاقہ اس کے بعد اپنے دفاع کے اہل ہوگا۔ پاکستان نے افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ سیاسی اور فوجی تعلقات بہتر بنائے ہیں۔ افغانستان سے اس سے قبل اچھے تعلقات پہلے کبھی نہ تھے اس وقت پاکستان اور افغانستان میں داعش موجود نہیں۔