برصغیر میں ہندو مسلمان صدیوں اکٹھے رہے مگر کبھی بھائی چارے کا ماحول نہ بن سکا۔کم سے کم درجہ حرارت حریف کا سا رہا۔1947ء میں تقریباً سو سال سے سلگتے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آگیا۔اس منزل کی طرف بڑھنے والی تحریک کے دوران یہ خیال تھا کہ ’’جیو اور جینے دو‘‘کی بنیاد پر شائد دونوں طرف مستقل امن قائم ہو جائے گا مگر تقسیم ہند کے ساتھ ہی لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کیلئے ہندوستان نے وہاں فوج کشی کردی ۔وہ غاصبانہ قبضہ اور مسلمان کشمیر یوں پر ہر طرح کا ظلم آج بھی اسی طرح قائم ہے بلکہ پاکستان کو بھی کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ہر امتحان میںپاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کے اعلٰی معیار، اورخصوصاًایٹمی قوت بننے کے بعد ہندوستان کو یقین ہو گیاکہ وہ سامنے آکر پاکستان کی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لہٰذا بدلتی صدی کے بدلتے حالات کے ساتھ اس نے بھی اپنی حکمت عملی کو بدل ڈالا۔ہماری مشرقی سرحد پر تو بھارت نصف صدی سے تخریب کاری کر ہی رہا تھا9/11 کے بعد امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنربن کر اس نے ہماری پوری مغربی سرحد کے ساتھ بھی قونصلیٹ کھول کر وہی کام شروع کردیا۔بلکہ اس طرف سے کھلے بارڈر اور متحرک دہشت گردوں کے ذریعے اسکا کام زیادہ آسان ہو گیا۔تقریباًڈیڑھ عشرے سے جب ہمیں دباؤ کے اندر جنگ لڑنی تھی تو اسے موقع مل گیاکہ وہ عالمی طاقتوں کی چھتری کے نیچے اپنے آپ کو علاقے کی اس لیول کی طاقت بنانے کی کوشش کرے جو افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی کا کنٹرول سنبھال کر پورے ساوتھ اور سنٹرل ایشیا(بشمول پاکستان )میں پر امن تجارتی نقل وحمل کو یقینی بنا سکے۔اس سوچ کے تحت معاملہ بڑھتا رہا۔
جب ہمارے ہزاروں پاکستانیوں کا خون اور اربوں کے اثاثے وطن کا صدقہ ادا کر رہے تھے انڈین افغانستان میں سرمایہ کاری ، چاہ بہار کی بندرگاہ اور وہاں سے ہرات تک سڑک وریلوے کی تعمیر اور اپنے ملک میں عسکری سازوسامان بڑھانے میں مصروف رہے۔پانچ ہزار سال سے ذلت آمیز تاریخ رکھنے والی قوم کو جب پہلی بار اپنی سرحدوں سے باہر کوئی رول ملا تو اس سوچ نے ان کے اندر ایک خاص قسم کا غرور بھر دیا جو اکثر کم ظرفوں میں آجاتا ہے۔مگر پچھلے سال جب امریکہ نے انخلاء کیلئے حالات کا جائزہ لیا تو معاملہ الٹ پایا۔انڈیا کو خطے میں کوئی بڑا تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔پاکستانی قوم اتنا خون بہنے کے بعد زیادہ باہمت اورافواج پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آگئیں۔انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ دوسروں کی امدادکے باوجود ISIکے سامنے فیل ہو چکی یعنی بلوچستان میں بھی ایک فرنٹ تک نہ بنا سکی۔ چائنا کو Contain کرنے کی بجائے انڈیا CPECسے فائدہ حاصل کرنے کیلئے بیتاب نظر آیا۔ اس موڑ پر پچھلے چھ ماہ میں تین نمایاں تبدیلیاں نظر آئیں۔ایک تو امریکہ کاخطے کے امن میں پاکستان کی اہمیت کا اقرار ، دوسرا امن کیلئے چار فریقی مذاکرات میں چین کی شمولیت اور انڈیاکا نکالے جانا، تیسرا تین ماہ میں143بار ہماری سرحدوں پر بلا جواز فائرنگ کرنے اور کولڈسٹارٹ وار کے Threat کا منہ توڑ جواب لینے والے ہندوستان کا ڈھٹائی سے پاکستان کی جانب خیر سگالی کی مسکراہٹیں بکھیرنا۔ حقیقت میں ہندوستان کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے لیکن بے بنیاد غرور قائم ہے۔
ہندوستان میں نریندر مودی جو پاکستان اور مسلمان مخالف شدت پسندوںکے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آئے تھے انہیںاب بدلتے حالات کے ساتھ پاکستان پر محبتوں کا جال پھینکنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے درمیانی راستہ یہ نکالا کہ ان کی حکومت تو پاکستان کے ساتھ دوستی کا راگ الاپتی رہے مگر انڈین میڈیا ان کے شدت پسند ساتھیوں کو قائم رکھنے اورپاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی باقائدہ مہم جاری رکھے ۔اس میں وہ کافی کامیاب بھی رہے ہیں۔آج ممبئی کے ایک معمولی واقعے کو انہوں نے کشمیر میں سالہاسال کی دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ سنگین بنا دکھایا ہے۔
پٹھانکوٹ ائیر بیس پر ڈرامے کو کامرہ ومہران پر حملے سے زیادہ اہم اور دہشت گردی کے شکار پاکستان کو دہشت گردوں کے سر پرست کی حیثیت میں دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ہم نے تعلقات میں بہتری کیلئے بڑے صبر کے ساتھ انکے الزامات کا جواب دینے کی کوشش کی مگرانہوں نے آج ہمیں مکمل دفاعی پوزیشن میں دھکیل رکھا ہے۔
بیرونِ ملک نیٹ پر ہندوستانی جارحانہ اور ہمارا معذرت خواہانہ رویّہ دیکھنے والے پاکستانی کافی پریشان ہیں۔امریکہ میں مقیم KPK سے تعلق رکھنے والی ایک محب وطن خاتون نے تو نہائت درمندانہ سوال کیا ہے کہ کیا ہمارے شیروں میں انہیں شیر کی آنکھ دکھانے والا کوئی نہیں؟جسطرح انڈین جنرل دلبیر سنگھ کی روزانہ کی دھمکیوں کے جواب میں جنرل راحیل شریف کا ایک ہی بیان اسکی ہوا نکالنے کیلئے کافی تھا، اسی طرح ان کے میڈیا کی سمت درست کرنے کیلئے ہمارے میڈیا کو بھی از خود منظم ہو جانا چاہیے۔آجکل انڈین میڈیا پر جو بے تُکا شور ہے۔اسکی صرف چار جھلکیاں ان کے بقول ملاحظہ ہوں’’
(1) پٹھانکوٹ حملے میں پاکستان نے تعاون کا یقین دلایا تھامگرانڈین شہادتوں کی بنیاد پر مولانا مسعود اظہر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ جو اسے فوراً کر کے دکھانی ہوگی۔
(2)ہندوستان میں مطلوب داؤد ابراہیم کو کئی سالوں سے پاکستان نے چھپا رکھا تھا اور اب نواز شریف صاحب کے گھر پر مودی صاحب سے ملاقات کروائی گئی ہے۔پاکستان نے اسطرح کیوں کیا۔
(3)اوکاڑہ میں کرکٹ میچ کے دوران کسی پاکستانی نوجوان نے بھارتی کرکٹر کوہلی کیلئے انڈین پرچم لہراتے ہوئے نعرے لگائے تو پاکستان نے اسے قید کی سزا کیوں دی۔انڈین چینلز پر پورا ایک گھنٹے کا پروگرام چلا۔
(4)بدنام زمانہ ڈیوڈہیڈلی نے امریکن جیل سے ویڈیو لائن پر ممبئی کی کورٹ میں وعدہ معاف گواہ کے طور پر بیان ریکارڈ کروایا کہ ممبئی واقعہ میں وہ شامل تھا۔اسے حافظ سعید،لکھوی اور حافظ سلیمان نے خود اس واردات کیلئے بریفنگ دی۔وہ اس کام کیلئے آٹھ مرتبہ انڈیا آیا۔دوبار یہ حملہ کامیاب نہ ہو سکا جبکہ تیسری بار ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔
اس پر ہندوستانی میڈیا نے تو بریکنگ نیوز اور ہیڈلائنز ہی یہ لگائیں کہ اب پاکستان اس ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا اور پاکستان کب حافظ سعید کو ہندوستان کے حوالے کریگا۔اگر نہیں کرسکتا تو ہندوستان کو پاکستان کے اندر فضائی کاروائی کرنی چاہیے وغیرہ‘‘۔
چاروں پوائنٹس مضحکہ خیز ہیں اور ان کو ہماری طرف سے اکا دکا جواب بھی ملا۔مگر من حیث القوم نہ تو ہم نے ان کے رویّے سے اپنی قوم کوآگہی بخشی نہ ہی انکے مونہوں کو لگام ڈالنے کیلئے کوئی حکمت عملی تیار کی۔اگر انہی پوائنٹس پر تدبر کے ساتھ میڈیا مہم چلائی جائے تو نہ صرف انڈیا کا کھوکھلاپن دنیا کے سامنے آشکار ہو گا بلکہ ہمارے اپنے اندر یکجہتی بہتر کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔یہ بات بھی اہل فکر ونظر کو واضح نہیں ہو پارہی کہ ہم ہندوستان کی اسقدر ناز برداریاں کیوں کر رہے ہیں؟۔ اسے تو ہم سے واہگہ ترخم راستہ اورCPECسے لنک جیسی امیدیں ہو سکتی ہیں مگر ہمیں ان سے کیا امیدیں ہیں؟
جب کوئی مفاد نظر نہیں آتا تو پھرعمومی تاثر غنڈے کو اکاموڈیٹ کرنے کا ابھرتا ہے۔جوکسی عالمی طاقت کیلئے تو سوچا جاسکتا ہے مگر انڈیا جیسے ملک کیلئے نہیں۔دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کو تباہ نہیں کر سکتے ۔ ہمیں مضبوط قدموں پر کھڑے ہو کر انکی ہر اچھی بری مہم کا جواب دینا ہے۔اور اگر ہم نے اپنی شرافت کو کمزوری بنانے دیا تو اسکی کوئی حد نہ ہوگی۔انڈیا اور پاکستان اپنے اپنے مفاد میںنہ کھلی دشمنی پال سکتے ہیںنہ ان کا DNAدوستی تسلیم کرتا ہے۔صرف برابری کی سطح پر ہر حرکت کا موثر جواب دیتے ہوئے ہمیں کنٹرولڈ ورکنگ تعلقات قائم رکھنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔