پنجاب اسمبلی : اورنج ٹرین پر حکومتی اپوزیشن ارکان کا ہنگامہ‘ بھرپور لفظی جنگ

Feb 19, 2016

لاہور (فرخ سعید خواجہ) پنجاب اسمبلی میں اورنج لائن ٹرین پر بحث کے دوران وزیر قانون رانا ثناءاور قائد حزب اختلاف محمود الرشید میں زبردست میچ پڑا۔ دونوں نے اپنی تقریروں میں نہ صرف اشعار اور کہاوتوں کے ساتھ اعداد و شمار کا سہارا لیا بلکہ ایک دوسرے کو چیلنج بھی کیا۔ قائد حزب اختلاف نے پنجاب کے ہسپتالوں کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لاہور کے ایک ایک ہسپتال کا نام لے کر اُن کی حالت زار بیان کی تو وزیر قانون اپنی نشست سے اٹھے اور کہا ”جناب سپیکر آج بحث اورنج لائن ٹرین پر ہو رہی ہے“۔ اُن کی یہ بات سن کر اپوزیشن لیڈر اور دیگر ممبران میاں اسلم اقبال، خرم جہانگیر وٹو، فائزہ ملک و دیگر بھڑک اٹھے جبکہ دوسری طرف سے حکومتی ارکان رانا ارشد، وحید گل وغیرہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر فقرے بازی کی گئی جس سے ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ سپیکر نے دونوں اطراف کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ اپوزیشن رکن اسلم اقبال نے کہا کہ آپ حکومتی مینڈکوں کو خاموش کروائیں۔ تاہم چند منٹ کے شور شرابے کے بعد صورت حال کنٹرول ہوگئی اور محمود الرشید نے لگ بھگ پچیس منٹ بلاروک ٹوک تقریر کی۔ وزیر قانون نے اپوزیشن کے تین اعتراضات کا تفصیلاً ذکر کیا اور اُن کے جواب میں جہاں دلائل دیئے وہاں منصوبے کی شفافیت کا دعویٰ بھی کیا۔ انہوں نے اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ اگر اس منصوبے میں کوئی کرپشن ہوئی ہے تو اسے نیب میں ثابت کرے۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی کا کوئی ادارہ یا کمپنی سریا کا کام نہیں کرتی جبکہ اتفاق فاﺅنڈری کو بند ہوئے 17سال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 55 ارب روپے کے سول ورک میں ایک ٹھیکے کا بھی تعلق شریف فیملی سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ محمود الرشید نے کہا کہ میں رانا ثناءکا چیلنج قبول کرتا ہوں اب یا آپ کو مستعفی ہونا پڑے گا یا میں مستعفی ہوں گا۔ قبل ازیں رانا ثناءاللہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ”میٹرو“ کی سٹڈی کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے اور کئی فائلیں ان کے سامنے رہیں وہ یوں تنقید کرتے ہیں جیسے انہیں پتہ ہی نہیں کہ منصوبے کی سٹڈی میں لاہور پر ٹریفک کا دباﺅ کم کرنے کے لئے چار لائنز بنانے کی سفارشات آئی تھیں۔ ان میں سے گرین لائن تا لاہور میٹرو بس بنی اور اورنج لائن پر اورنج ٹرین کا منصوبہ بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ گرین لائن اور پرپل لائن میٹرو مستقبل میں بنائی جائیں گی۔ انہوں نے اس موقع پر بابا بلھے شاہ کا شعر پڑھا یار دی اَکھ دا سوا لکھ لبھیا، ساری تولاں تے کی بن سی۔ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ اپوزیشن کا رونا اس بات کا ہے کہ یہ منصوبے مکمل ہوگئے تو الیکشن 2018ءمیں ہمارا کیا بنے گا۔ انہیں رونا کسی اور چیز کا آتا ہے نام کسی اور کا لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس پنجابی شعر پر کیا۔ روندی یاراں نوں لے لے ناں بھراواں دے۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے اورنج لائن ٹرین کو ”کھٹی ٹرین“ قرار دیتے ہوئے کہا پنجاب حکومت کا حال یہ ہے ع پلے نہیں دھیلا کردی پھرے میلہ میلہ۔ انہوں نے پنجاب کی معیشت کو اس شعر کی مانند قرار دیا، میں دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ نہ لگا۔
لاہور( خصوصی رپورٹر+خصوصی نامہ نگار +کامرس رپورٹر+ سپورٹس رپورٹر+نیوز رپورٹر) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کے دوران حکومت نے واضح کیا ہے کہ منصوبے کی وجہ سے صحت اور تعلیم سمیت کسی شعبے میں کوئی منصوبہ متاثر ہوگا اور نہ ہی اسے بند کیا جائے گا، 1956ءسے لے کر آج تک مختلف سست رفتار منصوبوں کے فنڈز تیزی سے تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں کو منتقل ہوتے رہے ہیں اور پھر انہیں واپس بھی کر دیا جاتا ہے، محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور خزانہ ہر تین ماہ بعد اس کا جائزہ لیتے ہیں، اس منصوبے کےلئے بھی مختلف شعبوں سے منتقل ہونے والے فنڈز انہیں واپس کئے جائیں گے، میٹرو ٹرین منصوبہ سٹیٹ آف دی آرٹ اور پوری دنیا میں سستا ترین ہوگا اور اپوزیشن کو چیلنج ہے کہ اگر وہ اسے غلط ثابت کرے تو حکومت جوابدہ ہو گی، اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ صرف 27کلو میٹر روٹ کےلئے پورے پنجاب کے عوام کو گروی رکھ دیا گیا ہے، قرضہ ملنے پر جشن منانا شرمناک ہے، ایشین ڈویلپمنٹ .2فیصد پر قرضہ دینے کو تیار تھا جبکہ موجودہ حکومت نے اسے 3فیصد پر حاصل کیا ،چار جون 2009ءکو حکومت ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو لکھ چکی ہے ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہماری ترجیح نہیں لیکن اب اسے دھڑا دھڑ مکمل کیا جارہا ہے، دس کروڑ عوام کی نمائندہ اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں اور ماڈل ٹاﺅن میں وزیر اعلیٰ کی قیادت میں تین چار بیورو کریٹس پر مشتمل اسمبلی سب کچھ کر رہی ہے، اگر دوسرے منصوبوں کے فنڈز منتقل کرنے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو ہم اس ایوان کو نہیں چلنے دیں گے اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ رانا ثنا نے کہا کل 165ارب روپے منصوبے کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اسکی لاگت 150ارب روپے جبکہ 15ارب روپے غیر متوقع اخراجات کی مد میں مختص کئے گئے ہیں۔ سول ورکس کےلئے 55ارب روپے رکھے گئے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ جب اس طرح کے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو اس سے جڑے 16کاروبار ترقی کرتے ہیں۔ اس دوران اپوزیشن نے واہ واہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ”سریا“ کا کاروبار بھی ترقی کرے گا۔ محمودالرشید نے کہا کہ رانا ثناءاللہ خان واپس فیصل آباد اور انکی قیادت نے جاتی امرا امرتسر چلے جائیں گے لیکن لاہور والوں نے یہیں رہنا ہے۔ اس منصوبے پر چوروں کی طرح خفیہ منصوبہ بندی کی گئی حکومت پر اس کا بھوت سوار ہے اور اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے آج اس پر بات کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو نے کہا ایوان کو بتایا جائے کہ میٹرو ٹرین منصوبے کے لئے کن شرائط پر قرض لیاگیا ہے۔ جب میٹرو بس کا ریکارڈ مانگا جاتا ہے تو ریکارڈ کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ حکومتی رکن رانا ارشد نے کہا کہ اس منصوبے سے صرف لاہور نہیں بلکہ پنجاب اور پاکستان سے آنے والے عوام سفری سہولتوں سے استفادہ کریں گے۔ حکومتی رکن اسمبلی باﺅ اختر نے کہا اس منصوبے سے دس لاکھ نہیں صرف 2300لوگوں کی اراضی متاثر ہوئی ہے اور انہیں معاوضہ دے کر ہر طرح سے مطمئن کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سبطین خان نے کہا اس منصوبے کی لاگت 165ارب نہیں 300سے 400ارب تک جائے گی۔ احمد خاں بھچر نے کہا کہ ایک ارب روپے سے جنوبی پنجاب میں 45ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہو سکتا تھا۔ وقاص حسن موکل نے کہا ایک کمپنی12روپے ٹکٹ پر اس منصوبے کو بنا کر دے رہی تھی اسے یہ منصوبہ کیوں نہیں دیا گیا؟۔ سی آر نورنکو کی پروفائل میں یہ اسلحہ ساز کمپنی ہے اور 1993-94ءمیں امریکہ نے اس کمپنی کو بلیک لسٹ کر دیا تھا پھر اسے کس طرح منصوبہ دیدیا گیا۔ علاوہ ازیں آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے جاری کردہ پنجاب کے صوبائی محکموں کی آڈٹ رپورٹس برائے 2014-15 پنجاب اسمبلی میں پیش کردی گئی ہیں، رپورٹس وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے پیش کیں، جن میں 34.25 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے جبکہ محکمہ خوراک بازی لے گیا جس کے مالی حسابات میں 4.5 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں پائی گئیں، پولیس بھرتیوں میں گھپلے کئے گئے پنشن کی مد میں 35 کروڑ روپے اور تنخواہوں کی مد میں 5ارب روپے کی زائد ادائیگی کی گئی، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ درجن بھر محکموں نے ہدایات کے باوجود نہ تو ریکوری کی اور نہ کسی افسر کے خلاف کارروائی کی جس سے حکومت کے اربوں روپے ڈبو دیئے گئے محکمہ ایکسائز نے 2ارب 71 کروڑ روپے کی ریکوری ہی نہیں کی، اسی طرح محکمہ مال میں 1.81 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی محکمہ ٹرانسپورٹ میں 1.8 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں دوائیوں اور مشینوں کی خریداری میں بھی اربوں روپے کے گھپلے کئے گئے محکمہ صحت کے 190 ارب روپے استعمال ہی نہیں ہو رہے ہیں رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمام محکمے پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسر سے فوری رابطہ کریں۔

مزیدخبریں