شہباز شریف کے انقلابی اقدامات

Feb 19, 2016

حافظ زبیر احمد ظہیر

تنقید ہماری قوم کا مزاج اور عادت بن چکی ہے، ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنا گویا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اچھے کاموں کی تعریف اور برے کاموں سے روکنا اللہ کا بھی حکم ہے۔ ازروئے قرآن و سنت بھی اگر کوئی حکمران اچھے کام کرے تو اللہ اور رسول کے بعد اسکی اطاعت مسلمانوں پر لازم ہے۔ حکمرانوں کا احتساب اپوزیشن کا حق اور اسکے فرائض میں شامل ہے لیکن محض ذاتی رنجش پر حکومت کے اچھے کاموں میں کیڑے نکالنے کو کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبوں پر اپوزیشن کی تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ اللہ نے شہباز شریف کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال کر رکھا ہے وہ بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور اس سے کسی کو کوئی انکار بھی نہیں ان پر تنقید کی جاتی ہے لیکن عوامی فلاح و بہبود کیلئے ان جیسے کام بھی کوئی نہیں کرکے دکھاتا۔شہباز شریف پنجاب میں ترقیاتی کاموں کیلئے بہت تیزی سے کام کررہے ہیں انکے انقلابی اقدامات کے باعث صوبہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پسماندہ علاقوں میں دانش سکولوں کا قیام، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے جگہ جگہ فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب، ٹرانسپورٹ کی بہتر اور جدید سہولیات کی فراہمی، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، غریبوں کیلئے مفت تعلیم کی فراہمی، آشیانہ سکیم، بنیادی تقریبات میں ون ڈش اور رات 10بجے کی پابندی انکے چند انقلابی اقدامات ہیں۔پنجاب میں بیروزگاری ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے شہباز شریف کی ذاتی کاوشوں سے نوجوانوں کو فنی تعلیم کی فراہمی کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹیوٹا) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ ادارہ سالانہ 2 لاکھ کے قریب نوجوانوں کو فنی تعلیم دے رہا ہے۔ ادارے کا مقصد نوجوانوں کو کم سے کم وقت میں ہنرمندی سے آراستہ کرنا ہے جبکہ نوجوانوں کو اندرون اور بیرون ممالک روزگار کی فراہمی کیلئے جدید پلیمنٹ بیورو بھی قائم کیا گیا ہے۔مہذب معاشروں میں کمیونیکشن کا جدید نظام ریاست کی بنیادی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کمیونیکیشن کے جدید اور سستے نظام میں پنہاں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سالانہ کئی سو ارب روپے غریب عوام کی ٹرانسپورٹ پر سبسڈی کی صورت میں خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اپوزیشن نے اورنج ٹرین پر 40ارب روپے کی سبسڈی کے فرضی اعداد و شمار پر خوامخواہ ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔ اورنج لائن ٹرین منصوبہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کا غریب عوام کو سفر کی جدید، سستی، محفوظ او آرام دہ سہولت کی فراہمی کے عزم کا اظہار ہے۔ جنوبی پنجاب کی محرومی اپوزیشن کا نعرہ بن چکی ہے مگر ملتان میں میٹرو بس اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کی ترجیحات صرف لاہور نہیں بلکہ پورا پنجاب ہے۔ ڈی جی خاں میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹی جیسے منصوبے اس کا ثبوت ہے، صوبہ کے دیگر شہروں میں بھی ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں، اسکے علاوہ پنجاب حکومت اور چینی و ترک کمپنیوں کے مابین ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، توانائی، ہائوسنگ، کان کنی، صنعت، مینو فیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں 150 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جو یقینی طور پر غیرملکی سرمایہ کاروں کا پنجاب اور خصوصاً وزیراعلیٰ شہباز شریف پر اظہار اعتماد ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے مساجد میں لائوڈ سپیکر کے بے جا استعمال پر پابندی پنجاب حکومت کا مستحسن فیصلہ ہے جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے ورنہ مساجد کو محض چندہ مانگنے اور ایک دوسرے کے نظریات و عقائد کیخلاف پروپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا جارہا تھا۔
شہباز شریف کے صوبہ بھر میں عوامی، فلاحی منصوبوں کے باعث اپوزیشن کو آئندہ انتخابات میں شکست کا خوف لاحق ہوچکا ہے اسی خوف کے زیراثر وہ پنجاب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
پنجاب کے عوام کی خوشی قسمتی ہے کہ انہیں شہباز شریف جیسا انتھک، محنتی، متحرک اور عوام کیلئے درد دل رکھنے والا وزیراعلیٰ ملا جس کا دوسرے صوبوں کے عوام بھی برملا اعتراف اور خواہش رکھتے ہیں کہ کاش انہیں بھی ایسا ہی لیڈر میسر آئے۔پنجاب کیساتھ ساتھ وفاق کی سطح پر بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے انقلابی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ پاکستان اور قطر کے درمیان حال ہی میں طے پانے والا ایل این جی کی درآمد کا معاہدہ اس اعتبار سے توانائی کے شعبہ میں گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسکے نتیجے میں پاکستان کے صنعتی، زرعی، کاروباری اور گھریلو صارفین کیلئے گیس سے پیدا ہونیوالی بجلی کی پیداوار میں تقریباً 2 ہزار میگاواٹ اضافہ متوقع ہے۔ اس معاہدہ پر عملدرآمد سے توانائی منصوبوں، صنعتوں اور گھریلو صارفین کیلئے ارزاں ترین گیس کی بلاتعطل فراہمی ممکن ہوسکے گی جس سے ایک طرف عام لوگوں پر گیس کے بھاری بلوں کا بوجھ کم ہوگا تو دوسری طرف لوڈشیڈنگ میں بھی کمی آئیگی۔
سابق صدر پرویز مشرف کی نام نہاد روشن خیالی نے ملک کی سماجی و معاشرتی قدروں اور اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ ملک کو لبرل اور سیکولر بنانے کی انکی خواہش معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنی۔ ملک میں بے حیائی، فحاشی و عریانی عروج پر پہنچ گئی۔ نوجوان نسل گمراہی کے راستے پر چل پڑی، پارکوں، تفریحی مقامات پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کچھ کرتے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بم دھماکے، دہشت گردی، قدرتی آفات، اللہ اور اسکے احکامات سے دوری ہی کا نتیجہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو معاشی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا اسلامی تشخص بحال کرنے اور ملک میں قرآن و سنت کے نظام کے قیام کیلئے بھی کوشش کرنا ہونگی کیونکہ قومیں محض بلند و بانگ عمارتوں، ٹرینوں سے نہیں اعلیٰ سیرت و اخلاق سے بنتی ہیں۔

مزیدخبریں