’’دِیوالِیہ مُلک اور کشکول بردار حُکمران!‘‘

16 فروری کو پیپلز پارٹی کی راہنما محترمہ فریال تالپور نے اسلام آباد میں آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور پارٹی کو جِس میں وزیراعظم چودھری عبدالمجید اور اُن کی کابینہ کے ارکان بھی شامل تھے، یقین دلایا کہ ’’پیپلز پارٹی یتیم نہیںہے‘‘ ۔
’’جنابِ زرداری کا اصولی فیصلہ؟‘‘
عربی زبان میں وہ کمسِن بچہ جِس کی ماں یا باپ یا دونوں مر گئے ہوں، اُسے ’’یتیم‘‘ کہتے ہیں لیکن لُغت کے مطابق ’’نہایت قیمتی جواہر، بڑا موتی، جو بے نظیر ہو، اُسے بھی ’’یتیم‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کسی لحاظ سے بھی یتیم نہیں ہے۔ پہلے ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘ اور اُس کے بعد ’’زندہ ہے بی بی، زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار کو پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن اُن کے قتل کے بعد محترمہ کی ’’مُبیّنہ وصیت‘‘ کے مطابق جناب آصف زرداری نے اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خود شریک چیئرمین کا عہدہ سنبھال لِیا۔ جنابِ زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر دو عہدے (صدرِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین) رکھنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دَوران 22 مارچ 2013ء کو پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دِیا تھا۔ چیئرمین بلاول دہشت گردوں کے خوف سے روپوش تھے۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے دَوران پیپلز پارٹی واقعی ’’سیاسی یتیم‘‘ بن گئی تھی۔
8 ستمبر 2013ء کو صدارتی مُدت پوری کرنے کے بعد جنابِ زرداری پھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ’’منتخب‘‘ ہو گئے اور 21 نومبر 2015ء کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز (پی پی پی پی) کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد جناب زرداری نے خود کو 27 دسمبر 2015ء کو (پی پی پی پی) کا چیئرمین بھی ’’منتخب ‘‘ کرالِیا۔ الیکشن کمِشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق جناب زرداری کا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اِس کے باوجود موصوف نے خبروں کے مطابق ’’ اصولی فیصلہ‘‘کرتے ہُوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاروں صوبوں میں اپنی نئی سیاسی ٹیم بنانے اور پارٹی امور چلانے کا اختیار دے دِیا ہے۔ ’’آزادکشمیر پیپلز پارٹی میں نئی سیاسی ٹیم بنانے کا اختیار شاید محترمہ فریال تالپور کے پاس ہوگا۔
جنابِ زرداری اور بلاول بھٹو دو الگ الگ پارٹیوں کے چیئرمین ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بیٹا اپنے باپ کا تابعدار ہوتا ہے۔ ایسی صُورت میں جنابِ زرداری کا بلاول بھٹو زرداری کو چاروں صوبوں میں اپنی ٹیم بنانے کا ’’اصولی فیصلہ‘‘ قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’دِیوالِیہ مُلک اور کشکول بردار حُکمران!‘‘
10 نومبر 2015ء کو وزیراعظم میاں نوازشریف نے کراچی میں ہندوئوں کے تہوار ’’ دیوالی‘‘ میں شرکت کی اور کہا تھا کہ ’’مَیں اپنے ہندو دوستوں سے اکثر گِلہ کِیا کرتا تھا کہ آپ بھی مجھے اپنی خوشیوں میںشریک کیا کریں میری خواہش ہے کہ مجھے بھی دیوالی منانے کا موقع مِلے‘‘۔ دیوالی کے دِن ہندو اپنے گھروں میں اور گھروں سے باہر چراغاں کرتے ہیںاور لکشمی (دولت کی دیوی) کی پوجا کرتے ہیں۔ 16فروری کو خبر آئی کہ ’’پاکستان کے بیرونی قرضے 50 ارب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں اور یہ 2016ء کے وسط تک دیوالیہ ہو جائے گا‘‘۔ یہ خبر بین الاقوامی مالیاتی تجزیہ کار کمپنی "Blumberg" کے حوالے سے آئی ہے۔ حکومتی ذرائع نے اِس خبر کی تردید کردی ہے۔ خدانخواستہ ہمارا پیارا پاکستان دیوالیہ کیوں ہو؟ مرزا غالبؔ کی اِس خواہش کے مطابق کہ…؎
’’ گری تھی جِس پہ ، کل بجلی، وہ میر آشیاں کیوں ہو؟‘‘
لفظ ’’دیوالیہ‘‘ ہندی زبان کا ہے جو اُردو میں بھی مستمل ہے ۔ اِس کا مطلب ہے ’’کنگالی‘‘ اور دَیو/ بھگوان کا گھر مندر، معبد (خانۂ خدا) بھی ۔ ہمارے یہاں ’’خانۂ خُدا‘‘ مسجد کو کہتے ہیں۔ عام مسلمانوںکی طرح خود کُش حملہ آور مسجدکا احترام نہیں کرتے ۔ عدم نے کسی خستہ حال مسجد کو دیکھ کر کہا تھا کہ…؎
’’دِل خوش ہُوا ہے مسجدِ وِیراں کو دیکھ کر
میری طرح خُدا کا بھی خانہ خراب ہے‘‘
آج کے دَور میں غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو ’’ خانہ خراب ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کئی بار بین الاقوامی برادری کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ’’پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘۔ ہمارے مولوی صاحبان تو صدیوں سے غریبوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر رہے ہیں کہ ’’غربت اور امارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے‘‘۔ قائدِاعظمؒ نے اپنی تمام جائیداد کا ٹرسٹ بناکر اسے قوم کے نام وقف کِیا تو پاکستان سے غُربت اِس لئے دُور نہیں ہُوئی، کہ بعد کے حکمرانوں نے اُن کے نقشِ قدم پر چلنا مناسب نہیں سمجھا۔ قائدِاعظمؒ سے پہلے جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’اتا تُرک‘‘ غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ ’’اتاتُرک کے جانشین دیانتدار/ مخلص اور قوم پرست تھے اورانہوں نے جمہوریہ تُرکیہ کو خوشحال ملک بنا دِیا۔ ’’عُلمائے سُو‘‘ نے اتا تُرک اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے اور رُسوا ہُوئے۔
قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا آخری فتویٰ ستمبر 2005ء میں داراُلعلوم دیو بند کے مہتم مولوی مرغوب اُلحسن نے دِیا تھا۔ برسرِاقتدار مسلم لیگ ق اور اقتدار سے باہر کسی بھی مسلم لیگ کے لیڈر نے احتجاج نہیں کِیا۔ صِرف ڈاکٹر مجید نظامی نے ’’نوائے وقت/ نیشن‘‘ میں اور مَیں نے اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں مرغوب اُلحسن کی خوب ٹُھکائی کی۔ مولوی مرغوب اُلحسن اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اُس کا ذہنی دیوالیہ پن اب بھی پاکستان میں فروغ پا رہا ہے۔
12 فروری 2014ء کو خبر آئی کہ ’’پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے قصبہ رجوعہ میں سونے کے ذخائر برآمد ہُوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’’ہم لوہا ڈھونڈنے گئے تھے کہ سونا مِل گیا اور اِس سونے کے مالک صِرف پنجاب نہیں بلکہ پاکستان کے سارے عوام ہوں گے‘‘۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی نوید دی تھی کہ ’’اب ہم کشکول توڑ دیں گے‘‘۔ (ابھی تک کشکول ٹوٹنے کی آواز نہیں آئی)۔ شریف برادران کے اِن اعلانات کو ایک سال اور 8 دِن ہوگئے۔ رجوعہ کے ذخائر سے کتنا سونا برآمد ہُوا؟ کہاں ہے؟ بھیک مانگنے کا وہ پیالہ جو فقیروں کے پاس ہوتا ہے اُسے ’’کشکول‘‘ کہتے ہیں اور پنجابی میں ’’ٹُھوٹھا‘‘۔ کہانی کے مطابق جب ’’رانجھا‘‘ اپنی شادی شدہ محبوبہ ’’ہِیر‘‘ کے گھر بھکاری بن کر گیا تو بے دھیانی میں ہیر سے رانجھا کا ٹُھوٹھا ٹوٹ جاتا ہے، جس پر سیّد وارث شاہ کی زبانی ہِیر نے کہا…؎
’’ گیا بھجّ تقدِیر دے نال ٹُھوٹا
ساتھوں قِیمت لَے جا مٹّ دی وے‘‘
یعنی تمہارا کشکول اچانک ٹوٹ گیا ہے۔ مَیں تمہیں اُس کے بدلے بڑے گھڑے کے برابر قیمت دینے کو تیار ہُوں۔ اگر کسی مقروض مُلک کا کشکول ٹوٹ جائے تو سود خور عالمی ادارے اُس کے بدلے، اُسے بڑے گھڑے کے برابر قیمت نہیں دیتے۔ کوئی مُلک دِیوالِیہ ہو جائے تو کشکول بردار ملک کہیں کا نہیں رہتا۔

ای پیپر دی نیشن