" کیاکنان پوشپورا آپ کویاد ہے"

Feb 19, 2017

سلطان محمود حالی

23فروری 1991کو سانحہ کنان پوشپورا اس وقت پیش آیا جب بھارتی فوج کے مسلح دستوں نے مقبوضہ کشمیر کے دور افتادہ ضلع کپواڑہ میں واقع گائوں کنان پوشپورا میں تلاشی اور تفتیشی کارروائی کے بہانے گھروں میں گھس کر کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتی کی۔ بھارتی سرکاری ریکارڈ کے مطابق کم ازکم 23 کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جن خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ان کی تعداد سو سے زائد ہو سکتی ہے۔ بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کو بے بنیاد بتاتے ہوئے مسترد کردیا لیکن غیر جانبدار مبصرین کے مطابق حکومت نے اپنی فوج کے اس گھنائو نے جرم کی پردہ پوشی اور اپنی فوج کو بچانے کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا تاکہ بھارتی فوج ان الزامات سے بری ہوجائے۔ بھارتی حکومت نے سرے سے اس سانحے کی تحقیقات ہونے نہ دیں۔ محض نام نہاد تفتیشی ٹیم نے اخذ کیا کہ الزامات جھوٹے ہیں اور بھارتی فوج کو بری الذمہ قرار دیا لیکن 1992میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی انسانی حقوق کی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا کہ انہیں ٹھوس شواہد کی موجودگی میں یقین ہے کہ بھارتی فوج نے کنان پوشپورامیں بڑے پیمانے پہ کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔2011 میں ریا ستی انسانی حقوق کمیشن نے بھارتی حکومت سے دوبارہ تفتیش کا مطالبہ کیا اور استغاثہ کے ڈائریکٹر نے تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کنان پوشپورا میں اجماعتی زیادتی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ بھارتی فوج کا کچھ نہیں بگڑا لیکن2012ء میں نئی دہلی کی23 سالہ میڈیکل کالج کی طالبہ کے ساتھ وحشیانہ اجتماعی زیادتی کے بعد بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میںنوجوان خواتین کے گروپ یہ سوال پوچھنے پہ مجبور ہوگئے کہ " کیاکنان پوشپوراآپ کو یاد ہے؟ "ان خواتین کو دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کے واقعے پہ بے حد افسوس تھا لیکن زیادہ افسوس اس بات پہ تھا کہ1991ء میں بھارتی فوج نے سو سے زائد کشمیری دوشیزائوں کی بڑے پیمانے پہ عصمت دری کی لیکن نہ منصفوں کے کانوں پہ جوں تک رینگی نہ بھارتی فوج نے کوئی ایکشن لیا بلکہ معاملے کو دبا دیا گیا۔2013ء میں جموں کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ کنان پوشپورا میں اجتماعی زیادتی کے کیس کو دوبارہ کھولاجائے۔2015 تک اس پہ کوئی کارروائی نہ ہوئی پر بھارتی فوج کے اعتراض کہ اس معاملے میں تازہ تحقیقات کی ضرورت نہیں، مقدمہ ایک مرتبہ پھر داخل دفتر کردیا گیا۔ اس سے مایوس ہونے کی بجائے 5 کشمیری لڑکیاں جن کی عمر 20 برس کے لگ بھگ تھے، نے جرأت سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو تحقیقی منصوبے کی شکل دی۔ نتیجے کے طور پر گزشتہ برس ، اس ہولناک سانحے کے ٹھیک25 برس بعد یعنی 23 فروری 2016 کو 224 صفحات پہ مشتمل ایک کتاب " کیا کنان پوشپورا آپ کو یاد ہے؟" کے عنوان سے دہلی میں واقع" زبان پبلشرز" نے شائع کی۔ کتاب کی مصنفین افراہ بٹ، منّزہ رشید، نتاشا راتھر، ایثار بتول اور سمرینہ مشتاق نے25 برس سے جاری انصاف کی جستجو میں جدوجہد کو قلم بند کیا ہے یہ کتاب آٹھ جلدوں پہ مشتمل ''جنوبی ایشیاء میں جنسی تشدد اور انصاف سے مستثنیٰ" کے عنوان پہ مبنی ہے۔ کتاب میں جنسی زیادتی کا کلنک، ریاست کی ذمہ داری ، انصاف کاتقاضہ اور صدمے کے طویل مدتی اثرات جیسے حساس موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔سماجی زندگی اور نفسیاتی توازن پرکشمیری نوجوان اور انکے والدین پہ اس جنسی تشدد کے گہرے منفی اثرات ہیں عورتوں اور خصوصی طور پر جوان لڑکیوں کو بھارتی فوجیوں کی جانب سے ہتک آمیز روئیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 1989ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں پوٹا، ٹاڈا اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین ہیں جن کے تحت جنسی تشد، قتل، جبری گمشدگی، قید اور زنا باالجبر کو تشددیا Torture کی آڑ حاصل ہے لہذا مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ ''کیاکنان پوشپورا آپکو یاد ہے؟ "کی مصنفین کی جرأتمندانہ کاوش کے باعث 23 فروری کو ''کشمیری خواتین کی مزاحمت کادن " قرارد یا گیا ہے تاکہ دنیا بھر میں کشمیری خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے اور قانونی کارروائی اور سیاسی عمل کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر میں جنسی تشدد اور زیادتی کرنیوالے بھارتی فوجیوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ نریندر مودی، اجیت دوول اور بھارت کے دوسرے ہندو اور انتہا پسند رہنمائوں کو غلطی کا سامنا ہے۔ مہاتما گاندھی کے پوتے راجموہن گاندھی نے18 ستمبر 2016 کو شائع ہونے والے مضمون "جموں کشمیر میں تعطل: متعلقہ بھارتیوں کو کشمیریوں سے رجوع کرنا چاہیے" جو" ٹائمز آف انڈیا "میں شائع ہوا اور بی جے پی حکومت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے مقبوضہ کشمیر میں شورش سے متعلق اپنی رپورٹ جسکے اقتباسات 8 نومبر کو بھارتی روزنامے "دی ہندو" میں شائع ہوئے، یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 8 جولائی 2016 کو مقبول نوجوان کشمیری رہنما برھان وانی کے قتل کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں جو اجتماجی تحریک چل رہی ہے وہ دراصل ایک رائے شماری ہے۔ کشمیریوں نے اپناووٹ" آزادی " کے حق میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی درندے کب تک سنگینوں کی نوک اور جنسی تشدد سے کشمیریوں کے جائز مطالبات کے حق میں بلند آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کریں گے؟ آئیے ہم سب مل کر23 فروری کو" کشمیری خواتین کی مزاحمت کا دن"جو ش و ولولے سے منائیں اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں کہ کشمیریوں کی آزمائش جلد ختم ہو اور انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول میں کا میابی ہو۔

مزیدخبریں