حکومت نے ایدھی کی چین سے منگوائی 30 ایمبولینسوں پر ٹیکس طلب کر لیا۔

ایدھی مرحوم کے بعد ویسے ہی ایدھی فاؤنڈیشن آج کل مشکلات کا شکار ہے۔ چندے میں بھاری کمی کی اطلاعات ہیں۔ اب اوپر سے بجائے مدد کرنے کے حکمرانوں نے بھی ان پر مالی بوجھ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ حکمران یاد رکھیں یہ ایمبولینسیں صرف غریب عوام کی مدد کیلئے ہی نہیں استعمال ہوتیں‘ کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں اعلیٰ افسران سے لے کر وزرا تک کو ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ سچ کہیں تو کئی نامور لوگوں کی تدفین بھی ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس اور فراہم کردہ کفن سے ہوتی دیکھی گئی ہے۔ خدارا عوام کی اس فی سبیل اللہ سہولت کو تو برقرار رہنے دیں۔ سیہون کا سانحہ گواہ ہے جب لوگ سرکاری ایمبولینسوں کو ترس گئے کیوں کہ جہاں ہسپتال ہی نہیں وہاں ایمبولینس کہاں سے آئیگی‘ تو سب سے پہلے حیدر آباد و دیگر قریبی شہروں سے درجنوں ایدھی کی ایمبولینسیں پہلی فرصت میں برق رفتاری سے سیہون پہنچیں اور نعشوں اور زخمیوں کو دادو‘ حیدر آباد اور کراچی کے ہسپتالوں میں پہنچایا۔کمائی کے اور ذریعے بھی ہیں۔ ایک اچھا کام اگر ہو رہا ہے تو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے فلاحی تنظیموں کو ایسے کاموں میں رعایت دیں جن کا فائدہ براہ راست غریب عوام کو ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب کو تو ڈاکو بھی لوٹنے کی بجائے چندہ دے کر چھوڑ دیتے تھے کہ کیا پتہ کل کو ان کا کفن دفن انہی کے ہاتھوں ہو۔ حکمران ارب پتی ہیں وہ ہی ترس کھا کر مزید ایمبولینسیں منگوائیں تو اچھا ہے۔ ورنہ ہماری سندھ حکومت کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے غریبوں کو بچانے کیلئے تھر سے سیہون تک یہ کہانی بار بار دہرائی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
گوجرانوالہ میں منی بسنت ۔ آسمان پتنگوں سے بھر گیا‘ ہوائی فائرنگ‘ پولیس خاموش
بے حسی کی انتہا ہے کہ ایک طرف پورا ملک لاہور اور سیہون شریف کے سانحہ پر سوگوار ہے دوسری طرف یہ بے حس لوگ منی بسنت کے نام پر ساری رات گوجرانوالہ میں جشن مناتے رہے۔ خوب جی بھر پتنگ بازی کر کے حکم امتناعی کے قانون کی دھجیاں بکھیرتے رہے۔ بات صرف پتنگ بازی اور فلڈ لائٹ کی روشنی میں شور شرابے تک محدود رہتی تو برداشت ہوتی مگر یہاں تو ہوائی فائرنگ کر کے جس طرح قانون کا اور قانون نافذ کرنے والوں کا مذاق اڑایا گیا وہ ناقابل برداشت ہے۔ سارا شہر فائرنگ سے گونجتا رہا مگر گوجرانوالہ پولیس شاید تھک کر آرام کرنے کے موڈ میں تھی۔ اسلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کیونکہ جیسے ہی سورج ڈھلے پولیس نے تھانوں کا رخ کیا گھروں میں دبکے پتنگ باز برساتی مینڈکوں کی طرح چھتوں پر نمودار ہوئے اور بو کاٹا کا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔ اس سے تو لگتا ہے حکومت کا سارا زور صرف لاہور میں ہی بسنت کی پابندی پر لگتا ہے۔ باقی شہروں میں ہتھ ہولا رکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ قانون اور عدالتی فیصلہ پر ہر شہر میں مؤثر عملدرآمد کرایا جانا ضروری ہے ورنہ تو قاتل ڈور بے گناہوں کے گلے کاٹنے کی دہشت گردی جاری رکھے گی۔
سپریم کورٹ نے دوسری شادی پر جرمانہ معافی کی درخواست مسترد کر دی
دنیا چاند اور مریخ سے لیکر نجانے کہاں کی کہاں پہنچ گئی اور ہم ہیں ابھی تک ہمت مرداں مدد خدا کے فلسفے کو لے کر بیگمات اور آبادی میں اضافہ کی دوڑ میں اول آنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کہیں پے در پے شادیاں کر کے اور کہیں بے تحاشہ بچے پیدا کرے۔ نجانے کیوں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت کو فرض سمجھ لیا گیا ہے اور لوگ گھروں میں کھانا ہو نہ ہو دوسری شادی کا ضرور سوچتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ہم اقبال کے شاہین والے فلسفے کے مطابق گھونسلہ یعنی گھر ہو نہ ہو گھر والی لازمی کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہم خود کو اقبال کا شاہیں سمجھتے ہیں اسلئے آگے بڑھنے دنیا میں نام کمانے سے زیادہ ہم خاندان بڑھانے کو مردانگی سمجھ کر کثرت ازدواج پر زور لگاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے‘ ترقی کر رہی ہے اور تعلیم سے لیکر خوشحالی کے میدان میں سب آگے جا رہے ہیں سوائے ہمارے۔
اب عدالت نے درست کہا ہے کہ بارہ ہزار آمدنی والے کو جو پہلے ہی شادی شدہ ہو ایک اور بیوی اور بچوں کا باپ ہو‘ کون لڑکی دیتا ہے۔ چاہے وہ کتنا شریف ہو کیونکہ گھر میں شرافت نہیں روٹی پکتی ہے۔ شرافت سے تو یوٹیلٹی بل اور کھانے پینے کا خرچہ نہیں نکلتا‘ کوئی شریف آدمی بھلا دوسری شادی کا کیا سوچے گا۔ ادھر دو بیویوں کا خرچہ کیسے اٹھائے گا۔ ایسے احمقانہ کرتوتوں کی وجہ سے ہی بعد میں جب طلاق‘ خودکشی یا قتل کی وارداتیں سامنے آتی ہیں تو سب سیاپا کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ظلم ہوا ہے…
٭٭٭٭٭٭
بھارتی ٹی وی سروے میں 70 فیصد بھارتیوں نے کشمیر کی آزادی کی حمایت کر دی۔
اب اس خبر سے جو مرچی مودی حکومت کو لگ رہی ہے وہ کافی تکلیف دہ ہو گی، کیونکہ پہلے ہی دنیا بھر کے امن اور انصاف پسند لوگ اور ممالک کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ برسوں پہلے وہاں رائے شماری کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ اب خود بھارت کے عوام بھی میڈیا کی آزادی کی بدولت جب کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ ہو رہے ہیں تو ان کا نکتہ نظر بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ کشمیر میں مظالم کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سچ کہیں تو کشمیریوں کی نسل کشی کیخلاف عرصہ سے سول سوسائٹی اور دانشور طبقہ آواز بلند کر رہا ہے۔ جس پر مودی حکومت سیخ پا تو تھی ہی اب بھارتی عوام کی اکثریت نے جس طرح میڈیا کے سروے میں کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کی ہے۔ وہ تو مودی سرکار کے منہ پر ایسا کرارا طمانچہ ہے جسکے پڑنے سے مودی سمیت تمام ارکان حکومت کا چہرہ سیاہ پڑ گیا ہے۔ کیونکہ اب ان سب کو وہ پاکستانی ایجنٹ قرار دے نہیں سکتے۔ سوائے رونے دھونے یا دل جلانے کے مودی سرکار اب کر ہی کیا سکتی ہے۔ کیونکہ اب تو بھارت کے عوام بھی حق کی وہ آواز بلند کر رہے ہیں جو یہ بھارتی پردھان منتری اور انکے منتری منڈل سننا ہی نہیں چاہتے مگر ساری دنیا سن رہی ہے…
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن