نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی اور پولیس کا بستہ ء خاموش

Feb 19, 2018

جرائم ہونے پر مجرموں کی موثر شناخت اور ان کے جرم کی نوعیت طے کرنے کیلئے ہماری تاریخ نے کھوجی سے لے کر فورینزک سائنس کے سفر تک پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جو مراحل طے کئے اس میں تفتیش اور شواہدکی حفاظت ہمیشہ ہی مسئلہ تھے جس سے بڑے بڑے مجرم نہ صرف پکڑے نہیں جاتے تھے بلکہ اگر گرفتار بھی ہوتے تھے تو استغاثہ کے کمزور شواہد کی وجہ سے یا تو انہیں سزاء کم لمتی تھی یاپھر وہ عدم ثبوت پر بری ہوجاتے تھے جس سے ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم بری طرح سے متاثر ہوا پولیس کی تفتیش میں کریڈیبلٹی پر سوال اٹھے اور عام شہری یہ شکائت کرتا رہا کہ اس کیلئے پولیس کے پاس انصاف نہیں چوری ، ڈکیتی ، قتل معاشرے کے ہمیشہ سے جرائم چلے آرہے ہیں لیکن جوں جوں سائنس نے ترقی کی جرائم بھی سائنٹفک ہوگئے ہیرا پھیری کے لوگوں نے وہ طریقے اپنائے کہ پولیس سمیت قانون کی عملداری کے اداروں کیلئے بھی مشکلات برح گئیں سائبر کرائم نئی شکل میں آیا دہشت گردی ایسی شکل میں آئی کہ اسے پوری دنیا ہی سمجھنے سے قاصر ہوگئی ان کیسوں کے مجرموں کی شناخت اور تلاش وہ مشکل مرحلہ بنی کہ بالآخر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تفتیش میں مدد کیلئے سائنسی بنیادوں پر لیبارٹری کی ضرورت اجاگر ہوئی ٹھوس شواہد کی فراہمی وہ بنیادی تقاضہ تھا کہ جن سے بیگناہ مجرم نہ بنایا جا سکے اور مجرم بیگناہ نہ بن سکے ترقی یافتہ دنیا نے بھی مجرموں کا کھوج لگانے کیلئے سراغرساں کتوں سے بھی مدد لی ہمارے ہاںپولیس تفتیش کے عمل میں کئی چیلنجوں سے گذری ہے پولیس پر کام چوری ، مجرموں سے مک مکا کرنے اور فاضل عدالتوں میں کمزور چالان بنا کر بھیجنے کا ہمیشہ ہی الزام بھی لگا جس سے مجرم سزاء پانے کی بجائے بری ہو جاتے تھے یہ ایسے الزامات تھے جنہیں پولیس بطور ادارہ فیس کرتی رہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے اندربھی ایسے عناصر موجود تھے جن کے خلاف ایسی شکایات درست ثابت ہوئیں اور انہیں محکمانہ سزائوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں ملازمت سے برطرفی کی سزاء سب سے بڑی تھی لیکن وقت کے ساتھ پاکستان میں ٹیکنالوجی نے جو ترقی کی اس کے راستے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے تفتیشی عمل سے بھی گذرے تو پتہ چل گیا کہ ان کیلئے شواہد کے حصول کیلئے نئی آسانیاں سامنے آگئی ہیں اسلام آباد میں جب2000 ء میں ریسکیو15 کا شعبہ بنایا گیا تو اس میں پہلی بار فورینزک وین بنا کر اس وقت کے ایس ایس پی ناصر خان درانی نے بہتر تفتیش اور شواہد یکجا کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھایا تھا بعد میں پولیس لائن میں پہلی فورینزک لیبارٹری بھی بنا دی گئی تھی 2002 ء میں نئے پولیس آرڈر کے تحت تفتیش کا شعبہ الگ کیا گیا تاکہ مقدمات کی تفتیش کیلئے ایک پورا یونٹ موجود ہو پورے ملک کی پولیس اس نئے نظام سے بھی گذری لیکن اصلاح احوال نہ ہوئی لاہور میں چلنے والی فورینزک سائنس لیبارٹری پر پورے صوبے کی پولیس جاتی اور اپنے کیسوں کے شواہد چیک کراتی اس عمل میں بھی مک مکا کی شکایات تھیں پولیس میں اب ہومیسائیڈ یونٹ بناکر قتل کیسوں کی کی بھی الگ سے تفتیش ہونا شروع ہے جب پولیس کے پاس وقوعہ کے شواہد کی سائینٹفک سند ہوگی تو مجرم بھی سزاء سے بچ نہیں سکیں گے اب ملک میں وفاق کی سطح پر نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی کا ادارہ بن چکا ہے جس کے زیر اہتمام 15 سے16 فروری تک میریٹ ہوٹل میں دوروزہ کانفرنس منعقد کی گئی جس میں کسی بھی نوعیت کے جرم میں ملزموں کی پکڑ کیلئے موثر شناخت سائنسی بنیادوں پر کرنے کے طریقوں کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا گیا اس کانفرنس میں پولیس ، ایف آئی اے ، عدلیہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئر افسران نے بڑی تعداد میں شرکت کی کانفرنس میں ہرموضوع پر ماہرین نے اپنے اپنے شعبے سے متعلق لیکچر دئے سائنسی ماہرین نے کانفرنس میں فورینزک سائنس کی اہمیت کے بارے میں وہ امور بتائے جن کی مدد سے کسی بھی وقوعہ میں ملوث اصل ملزموں کی درست شناخت ہوتی ہے فورنزک سائنس صرف ہڈی کے مشاہدے سے یہ بھی بتا سکتی ہے کہ ڈوبنے والا حادثاتی ڈوبا تھا یا اسے ڈبویا گیا تھا نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ثاقب سلطان نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ دوروز تک مسلسل شرکائے کانفرنس کو ایک ایک پہلو سے آگہی دینے کیلئے مربوط طریقہ کار اپنایا تھا کانفرنس میں ڈی جی پاکستان فورینزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر محمد اشرف طاہر ، چیئرمین نیکٹا احسان غنی ، ڈی جی نیشنل پولیس بیورو شوکت حیات ، آئی جی موٹر وے ڈاکٹر سید کلیم امام ،آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری ، سابق سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ ، سابق ایڈیشنل آئی جی رائو محمد اقبال ، ڈی آئی جی سیکیورٹی اسلام آباد وقار چوہان ، ایس ایس پی نیشنل پولیس اکیڈیمی کیپٹن (ر) محمد الیاس،سابق آئی جی سید اصغر رضا گردیزی ، یونیورسٹی آف ویسٹرن کیپ جنوبی افریقہ کی پروفیسر ڈاکٹر ماریہ ڈی اماتو، این آئی ایچ کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد حسین ،ایڈیشنل ڈی جی نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر محمد امجد ، فرونزک میڈیسن کنگ ایڈورڈ کے سربراہ ڈاکٹر عارف رشید ملک ،سابق ّئی جی سلیم طارق لون ،سابق آئی جی نیاز احمد صدیقی،سابق آئی جی سرمد سعید خان ، چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن پرویز راٹھور ،بائیو جینیٹکس نمز کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ محی الدین ڈائریکٹر نمز ڈاکٹر دلشاد احمد خان ،اسسٹنٹ پروفیسر کامسیٹس ڈاکٹر سلیم بخاری نے کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر فورینزک سائنس کی اہمیت اجاگر کی کانفرنس میں موٹر وے پولیس ، نیشنل فورینزک ایجنسی ، انٹر نیشنل ریڈ کراس ، اسلام آباد ٹریفک پولیس نے اپنے سٹال لگاکر کسی بھی ایمرجنسی میں موقع سے شواہد جمع کرنے اورمتاثرین کی مدد اور بچائو کیلئے اپنی تیاریوں کو اجاگر کیا پاکستان میں قومی سطح پر فورینزل سائنس ایجنسی کا ادارہ بن جانے کے بعد اب اپنی اہمیت اور شناخت اجاگر کرنے میں کوشاں ہے پولیس اور تفتیش سے متعلق دیگر اداروں کے کام بھی یقینی طور پر بڑی آسانی ہوجائے گی فورینزک سائنس کی اہمیت سے ترقی یافتہ ممالک عرصے سے استفادہ کرکے سنگین جرائم کنٹرول کرنے اور ان کے مجمروں کو بروقت اور تیزی سے سزائوں کے عمل سے گذارنے میں مثال بنے ہیں اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہر طرح کے جرائم میں پولیس اس سائنسی طریقہ تفتیش میں مدد لے کر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں اپنا کلیدی رول ادا کرنے میں اور آسانیاں محسوس کریں گے اور تفتیش میں پروفیشنلزم بھی اجاگر ہوگا اور شواہدسائنسی بنیادوں پر سامنے ہونے کے باعث اب پولیس کی کوئی مثل بستہء خاموش میں نہیں رہے گی ۔

مزیدخبریں