ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ۔۔۔!

Feb 19, 2018

نعیم مسعود

طرز تکلم کا جادو ہو یا حسن کا جلوہ ، جب یہ سیاسی شاہراہ پر گامزن ہوں تو بھولے عوام کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو کسی عاشق نامراد پر بیتے! ایسے میں ماحول کچھ عجیب سا نہیں بن جاتا؟ بقول غالب:

پھر دیکھئے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد بطور طالب علم جب نیا نیا پنجاب یونیورسٹی گیا، تو پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے ہی صدام حسین کے حق میں ماحول بن گیا۔ یہ دسمبر 1990 ء کے روز تھے ہر جانب صدام ہی کی تصاویر تھیں،تصاویر خریدنے اور بیچنے کا ریکارڈ بن گیا۔ اس ماحول کے تناظر میں، میں آج بھی سوچتا ہوں کہ راتوں رات اتنی تصاویر شائع کیسے ہوگئیں؟ صدام حسین اتنا بڑا ہیرو تھا نہیں جتنا ہم نے بنا دیا تھا، کوئی مانے نہ مانے وہ 16 جنوری 1991ء سے 28 فروری 1991ء تک امریکہ کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ جبکہ ہمارا قصیدہ گو یہی ثابت کرتا رہ گیا کہ ریگستانوں میں امریکی فوجیوں کو فضا اور ہوا چنے کے دانوں کی طرح بھون کر رکھ دے گی یا ایسے منظر ہوگا جیسے مکئی کے دانے کسی بھٹی میں جھلستے اور اچھلتے ہیں۔ لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ بات ماحول کے بننے کی ہو رہی ہے، جماعت اسلامی سے حکومتی اراکین سمیت شاید ہم سب تھوڑی دیر کیلئے سعودی عرب اور کویت کو بھول گئے تھے کہ صدام نے ان کے ساتھ کیا کیا یا کیا کرنے کے درپے تھا۔ ہاں، ہم نے ضرور سوچا مگر اس وقت جب وقت کوسوں دور اپنا کام دکھا کر جا چکا تھا۔
ایسے جیسے جب ہمیں ذاتی سانحے کی سمجھ آئی تو وقت سقوط ڈھاکہ برپا کرکے اور ہمارے منہ پر طمانچہ مار کر کہیں دور جا چکا تھا۔ ان وقتوں میں بھی ہم ایک مخصوص ماحول میں قید و بند تھے۔ ستم تو یہ ہے کہ قائدین سے عمائدین تک آنکھیں بند کئے ہوئے اپنی اپنی ستائش باہمی کی بزم آرائیوں میں غرق تھے، کوئی بہادر شاہ ظفر تھا اور کسی کا عالم محمد شاہ رنگیلا سا تھا اور لٹیا ڈوب گئی۔
تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان سے استحکام پاکستان تک کئی ماحول بنے اور کئی بنائے گئے۔ لیکن جو ماحول کردار اور اصول نے سینچا وہ ذاتی نہیں انسٹیٹیوشنل تھا، اور کردار و اصول کا یہ منبع قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو ، پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے ملنے اور بچھڑنے والے سیاسی لوگوں کی اکثریت اقتدار پرستوں کی تھی جو وطن پرست نہ ہو سکے بس خود پرست ہی رہے۔ وطن پرستی کے لیے انسٹیٹیوشنل ہونا ضروری تھا اور ہے!
پھر آج اکیسویں صدی میں جہاں میڈیا کو صاف شفاف ہونا چاہئے تھا وہ کہیں کسی کا معاون ہے اور کسی کا مخالف، تجزیہ اور خبر دینے کے بجائے کسی کے حق یا مخالفت میں ماحول بنائے جاتے ہیں۔ ہم متعدد دوستوں سے روزانہ مستفید اور مستفیض ہوتے ہیں۔ جو تبصرے کے نام پر کسی نہ کسی کی وکالت یا خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ ملک کے پڑھے لکھے اور زیرک طبقے کے لئے جب سیاستدان اور سیاست مسلک بن جائے تو یہ ممکن نہیں کہ بگاڑ کی جگہ بنائو لے لے، پھر تو یہی ممکن ہے کہ، بکاؤ مال بکتا رہے اور بڑا بیوپاری سیاستکاری سے ایوان کا جاہ و جلال کماتا رہے۔ فی زمانہ بین الاقوامی موازنہ ہمیں کتنا ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کہہ رہا ہے؟ ہمارا ملک ہم عمر چین اور ملائشیا سے کتنا آگے نکل گیا؟ کھیلتے کھیلتے کبھی کبھی بلے کا کنارا لے کر بھی چھکا لگ جاتا ہے، کیا اسے ترقی کہہ کر گردانیں؟
زیادہ دور نہیں جاتے، نئی پود کے سامنے زرداری دور کا ماحول بنانا اور ماحولیات رکھتے ہیں، کل کی بات ہے بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، نذر محمد گوندل، راجہ ریاض وغیرہ زرداری صاحب کے حق میں کتنا ماحول کشید کرتے تھے۔ آج عمران خان کا ماحول بناتے نہیں تھکتے، اسی طرح پرسوں دانیال عزیز اور امیر مقام جنرل مشرف کے لئے کس قدر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ماحول تراشتے رہے، آج یہ میاں نواز شریف کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ یہ خود یا کوئی اور بتائے گا کہ یہ اپنے پہلے ادوار میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے تھے یا اب بنتے ہیں؟ آہ ! یا پھر یہ عالم ہے کہ ’’جس دے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے ‘‘ اور ہر دور میں سیانے۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!!!
ریاستوں کی مضبوطی، اداروں کی کارکردگی اور عوام کی فلاح آئین کی پاسداری کے سبب ہوا کرتی ہے، یہ صداقت عامہ ہے کہ اگر حکمران اور اس کی کابینہ اور مشینری درست ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ، سول و ملٹری ، بیوروکریسی اور عدلیہ و انتظامیہ کسی بے اصولی، لاقانونیت یا من مانی کے مرتکب ہوں! اچھائی یا برائی اوپر سے نیچے سرایت کرتی ہے الٹی گنگا بہتی ہے نہ بہائی جاتی ہے۔
نظام وہ ہوتا ہے جس میں محمود و ایاز کیلئے ایک ہی صف ہوتی ہے۔ جہاں ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور عدالتوں میں انسانی حقوق کا بول بالا ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی سیاسی لیڈر امور صحت و امور تعلیم و فراہمی انصاف میں 7 تا 28 تک کی آئینی دفعات کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے، تو وہ پھر سیاسی لیڈر نہیں رہبر و رہنما ٹھہرا۔ مسئلہ سیاسی وراثت یا سیاسی میراث کا نہیں، معاملہ یہ ہے کہ کیا سیاسی من مانیاں و سیاسی اداکاری اور بنے یا بنائے جانے والے سیاسی ماحول ایاز کی دہلیز تک جاکر دروازہ کھٹکھٹا کر تعلیم ، صحت اور انصاف فراہم کریں گے یا فراہمی محمود کے محل کی چوکھٹ چومے گی؟ خدشہ یہ ہے مناپلی اور اشرافیہ پروری کو مؤذن جیسا میڈیا بھی تقویت پہنچانے کے درپے ہے، مسیحا و معلم بھی اشرافیہ کے تلوے چاٹتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ عادل کا عدل بھی کسی فون اور ممنون کا منتظر ہوگا تو کیا ہم اسے ترقی و خوشحالی و روشن خیالی یا اسلامی تہذیب و تمدن کہیں گے؟ پھر غریبوں کی غربت کا مذاق اڑانے کے لئے وفاق نے وزیر اعظم ہیلتھ کارڈ کا شوشا چھوڑا حالانکہ آئین کے مطابق ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ادارے اس کی صحت کا خود خیال رکھیں جس کے لئے شناختی کارڈ ہی کافی ہے۔ ( اس کا بینظیر سپورٹ کارڈ سے بہرحال موازنہ نہیں بنتا ) ضرورت تو اس امر کی تھی کہ وفاق، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی بہتر بناتا جسے کچھ عرصہ قبل سینٹ کی ایک کمیٹی نے پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ قرار دیا۔ پھر ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ فارمیسی کونسل آف پاکستان کا صدر کسی فارماسسٹ کو بنایا جاتا لیکن ناسمجھ منسٹر نے الٹا ایک ریٹائرڈ من پسند شخص کو ایڈجسٹ کرکے نیا عہدہ وائس پریزیڈنٹ تراش دیا۔ اور ماحول بنا دیا کہ ماہر ادویہ اور ادویہ کے ضمن میں بہت کام کر دیا۔ اور وہ صحت جسے تعلیم کی طرح 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے پاس ہونا تھا، جسے کسی بھی وزیر کو ایڈیشنل چارج کے طور سے دیا جا سکتا تھا ، پہلے اس کی لئے وزیر مملکت تھیں بعدازاں وزیر اعظم عباسی صاحب نے نہ جانے کس ماحول میکنگ کے تحت سائرہ افضل تارڑ کو بطور وفاقی وزیر "ترقی" دے دی۔ ایسے ہی بلاضرورت اور بلا سوچے سمجھے مرکز کے تحت نہ ہونے کے برابر تعلیم کو پہلے وزیر مملکت سے "چلایا" جا رہا تھا بعدازاں بلیغ الرحمن جیسے محدود فکر کے شخص کو "فل وزیر" بنا دیا گیا۔ معرکہ یہ ہے، کہ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سرچ کمیٹی کے لئے عجیب و غریب لوگوں کو سرچ کرلیا گیا ہے، پنجاب سے لئے گئے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے مالک سید بابر علی وغیرہ کی شمولیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلے ہی پنجاب کی سرچ کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے ان کی مہربانیوں سے وائس چانسلرز کی سبھی تعیناتیوں پر انگلیاں اٹھتی رہیں اور فیصلے ہائی کورٹ کو کرنے پڑے۔ پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کا ماحول یہ بنا دیا گیا ہے کہ کسی وائس چانسلر یا پی ایچ ای سی کے چئیرمین کی عزت بیوروکریسی سے محفوظ نہیں، چانسلر آفس محض ڈاکخانہ اور وزیر تعلیم عرف پروچانسلر محض جمعہ جنج نال ہے۔ درد ناک اور غضب ناک اطلاع یہ ہے کہ ایک مشیر کے بھائی کو فیڈرل ایچ ای سی کی چئرمینی دینے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ پہلے ایک ہومیوپیتھک وی سی کے طور پر دن پورے کر رہا ہے اور اسکی کی ہوئی بھرتیوں کے قصے بھی زبان زد خواص و عوام ہیں۔ یہاں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر مختار کی منصفانہ اور تعلیم دوست پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے اور بنے بنائے مثبت ماحول کی پاداش میں انہی کی بحیثیت چیئرمین توسیع کر دی جائے، ڈاکٹر مختار احمد نے توقع کے برعکس غیر معمولی پرفارم کیا!
حالیہ ماحول کہتا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم ہے، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ماحول بنا دیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے ناپائیدار ہیں۔ ان کے مطابق عوامی فیصلہ جی ٹی روڈ ریلی اور ایبٹ آباد و پشاور کے جلسوں سے لے کر لودھراں الیکشن اور جلسے تک ان کے حق میں آیا ہے۔ اس ماحول کی وجہ یا لودھراں رزلٹ ماحول کا کریڈٹ صرف ن لیگ کو نہیں جاتا اوپر بیٹھی صوبائی اور وفاقی ’’حکومتوں‘‘ کو جاتا ہے۔ اگر اوپر حکومت نہ ہوتی تو یہ فاتحانہ و جارہانہ اور جلسیانہ ماحول ہی نہ ہوتا۔ وفاقی و صوبائی ذرائع اور عہدوں کے بل بوتے پر یہ سب تو چوہدری شجاعت بھی کر لیتے، اس میں کمال کیا ہے؟ ’’کمال‘‘ شاید یہی ہے کس قدر آرام سے ہم ماضی فراموش کرکے نیا ماحول بنا لیتے ہیں، اور صدقے جائیں عوام کے جو بنی ہوئی ہوا یا بنائے ہوئے ماحول پر فدا ہو جاتے ہیں اور حالات کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ کبھی نہیں دیکھتے۔ جی، وہ ماحول تو کبھی عمران خان کے لئے بھی بنایا گیا اور زرداری صاحب کیلئے بگاڑا گیا تھا۔ کیسی بات ہے اور کیسا ماحول کہ 90 ہزار سے زائد ووٹ مغلوب اور اس سے کچھ زیادہ غالب! ہمارے ہاں غالب اور مغلوب کا رشتہ آج بھی رعایا اور بادشاہوں والا ہے، انسانی حقوق اور جمہوریت والا نہیں! کاش لوگوں کو دل پشاوری کرنے کیلئے ہی متناسب نمائندگی والا سبق یاد ا ٓجائے۔
آج ماحول اور ماحول بنانے والے دونوں بند گلی میں ہیں۔ جب تک عوام، عدلیہ، آرمی اور سیاستدانوں نے ماحول سازی اور ماحولیات کا پولیٹیکل سائنس کے طور سے جائزہ نہ لیا تب تک حالات بد سے بدتر بنتے چلے جائیں گے، پس ذات سے نکلیں اور مملکت میں داخل ہوں !!!

مزیدخبریں