لودھراں کی شکست کا نیا زاویہ

Feb 19, 2018

محمد اسلم خان....چوپال

لودھراں ضمنی الیکشن میں عمران خان کو خواتین ووٹروں کے ردعمل نے بدترین شکست سے دوچار کردیا' کہ سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اجتماعی دانش نے عمران خان کی روحانی پیشوا"پنکی پیرنی" سے معاملات کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ جس کے عملی اظہار کا موقع انہیں لودھراں کے چناؤ میں مل گیا کیونکہ تحریک انصاف کا ووٹ بنک بنیادی طور پر خواتین اور بیٹ بلے والے نوجوانوں پر مشتمل تھا یہ کالم نگار کم از کم ایک سو خواتین سے ملا کسی ایک نے بھی ہنستا بستاگھر اجاڑ کر ' رشتہ بھجوانے' کو ہضم نہیں کیاتھا اور روحانی معاملہ تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا تھا۔ ہمارے سماج میں تعددِ ازواج کو پسند نہیں کیا جاتا کہ کیونکہ ہمْ صدیاں گذرنے کے باوجود منوسمرتی کے سماج کی ہندو روایات سے جان نہیں چھڑا سکے۔ عام خواتین اسے پاکستانی راسپوٹین قرار دے رہی ہیں جس کی ہوس اور بھوک ختم ہونے میں نہیں آرہی کہ وہ 65 برس کی حد عبور کرکے بڑھاپے کی حدود میں کب کا داخل ہو چکا ہے ۔ شکست کی اور بھی وجوہات بیان کی جاتی ہیں کہ جوان سال علی ترین اتنا اجنبی تھا کہ میٹھی سرائیکی کے شریں مقال چند بول بولنے سے قاصر تھا اور اپنی کامیابیوں پر نازاں و فرحان خوش بخت نوازشریف ضمنی انتخاب میں کامیابی کو عدلیہ کی شکست قرار دے رہے ہیں۔ 

شاہد خاقان عباسی اپنی حکومت کے آخری نناوے دنوں میں ترقیاتی منصوبوں کی سنچری بنانے کی کوشش میں ہیں۔ کے پی کے میں سابق اتحادی آفتاب شیر پائو نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کے 30 ارکان صوبائی اسمبلی اپنی جماعت کے امیدوار کو سینٹ میں ووٹ نہیں دیں گے۔ اصول پسندعمران نے ارب پتی امیدواروں کو سینٹ کا ٹکٹ دے کر خود پارٹی ارکان اسمبلی کو پیسے کمانے کی نئی حکمت عملی متعارف کرائی ہے۔
مسلسل سفر کے دوران مختلف خواتین سے لودھراں الیکشن اور عمران کی سیاست کے حوالے سے تبادلہ خیال حیران کن رہا۔ خواتین نے پنکی پیرنی کے معاملہ پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا جو ہمارے روایتی اقدار پر کاربند معاشرے کی حقیقی جھلک پر مبنی تھا۔ خواتین کو چار بچوں کی ماں کو طلاق دلوا کر شادی کی پیشکش کرنے کی عمران کی حرکت سخت ناگوار گزری ہے۔ یہ عمران کی سیاست کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوئی۔اس حقیقت کی تصدیق لودھراں میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن کے دوران خواتین ووٹروں کے طرز عمل کو دیکھ کر بخوبی سمجھ آجاتی ہے۔ ذرا ایک نظر لودھراں حلقہ کی ووٹرز فہرست پر ڈالتے ہیں تاکہ بات سمجھ آسکے۔
لودھراں میں دسمبر2015ء کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایک لاکھ انتیس ہزار 606 ووٹ ملے، مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ ترانوے ہزار ایک سو تراسی ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس بار علی ترین نے اکیانوے ہزار دو سو تیس ووٹ لئے جو صدیق بلوچ کے ووٹوں کے قریب تھے۔الیکشن کمشن کے مطابق اس حلقہ میں ووٹوں کی تعداد چارلاکھ اکتیس ہزار دو ہے۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد دو لاکھ چھتیس ہزار چار سو چھیانوے اور خواتین ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ چورانوے ہزار پانچ سو چھ تھی۔ خواتین ووٹروں کی تعداد 45.1 فیصد بنتی ہے۔ بارہ فروری کے حالیہ ضمنی الیکشن میں دو لاکھ پچیس ہزاور ووٹ ڈالے گئے۔ ٹرن آئوٹ باون فیصد رہا جو خاصا زیادہ ہے۔ اس حلقے میں خواتین اور مردوں کے لئے یکساں تعداد میں الگ الگ 49 پولنگ سٹیشن قائم تھے۔240 پولنگ سٹیشن ایسے تھے جہاں مردو خواتین دونوں ووٹ ڈال سکتے تھے۔ امن اور ترقی کے لئے مرکز (سی پی ڈی آئی) کے حالیہ سروے کے مطابق تحریک انصاف نے ریکارڈ تعداد میں خواتین پولنگ ایجنٹس اور دیگر عملہ تعینات کیاتھا۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کا ٹرن آئوٹ کم رہا۔ ایک گھنٹے میں ستائیس مردوں کے مقابلے میں بائیس خواتین نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ سروے میں انکشاف ہوا کہ الیکشن کمشن کی مہم کے باوجود حلقے میں خواتین ووٹروں کا اتنا کم ٹرن رہا۔ لودھراں الیکشن میں ووٹ دینے والی سب سے زیادہ تینتالیس فیصد خواتین ووٹرز کی عمر تئیس سے پینتیس سال بیان کی گئی ہے۔ ان ووٹروں میں اٹھاون فیصد یعنی سب سے زیادہ ووٹ ان خواتین نے دیا جو بظاہر کچھ نہ کرنیکی وجہ سے گھریلوخواتین کہلاتی ہیں۔ ملازم پیشہ خواتین کی محض آٹھ فیصد تعداد ووٹ ڈالنے آئی۔طالب علم خواتین کی تعداد اس سے بھی کم یعنی سات فیصد ریکارڈ ہوئی۔مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ ان خواتین میں سے بھی سب سے زیادہ ووٹ ان پڑھ خواتین نے دیا۔ خواتین کا کہنا ہے کہ عمران کی
’پلے بوائے‘ کی شہرت کو نظرانداز کردیاگیاتھا لیکن کسی بسے بسائے گھر کو اجاڑ کر سہرے کے پھول سجانے کی حرکت ناقابل برداشت ہے جس نے خواتین کو شدید مایوسی سے دوچارکرتے ہوئے اس انتہائی ردعمل پر اکسایا ہے۔
ہمارا پنجابی سماج مردوں کے باہمی تعلقات میں جس طرح کی پاکیزگی اور حیا کا تقاضا کرتا ہے اسے ایک بے مثل پنجابی شاعر نے کچھ یوں بیان کیاہے
جِِتھے آون جاون ہوئے' رہئیے وانگ بھراواں
خانے کعبے وانگوں تکیے' رکھیے پاک نگاہواں
اپنے دوستوں کے گھروں میں سگے بھائیوں کی طرح جانا چاہئے دوستوں کے گھروں کو خانہ کعبہ کا درجہ دینا چاہئے اور اپنی نگاہوں کو پاک رکھنا چاہئے پنجاب کی سماجی اقدار و روایات عام افراد سیاسی قدر اعلی درجے کی پاکیزگی کی توقعات رکھتی ہیں تو رہنماؤں سے یہ توقعات فرشتوں جیسی ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف حکمران خاندان کی لودھراں میں حالیہ آمد بمع پورا خاندان کی تقریب رونمائی تھی۔ شہباز شریف، حمزہ ایک طرف دوسری جانب سادہ مزاج واطوار نئے نویلے ایم این اے پیراقبال شاہ اور مریم نواز تھیں۔ پیغام یہ تھا کہ ’ہم سب ایک ہیں۔‘مسلسل کالم اور خبریں آرہی تھیں کہ شہباز شریف اور نوازشریف دو الگ کیمپ ہیں، دو الگ نظریات ہیں، نوازشریف نے پیغام دیا کہ وہ ایک ہی فرقہ ہیں، فرقہ اقتداریہ، ان کے ساتھ ’مریدین یا پجاری‘ ہی چل سکتے ہیں۔ فرقہ اختلافیہ‘ ملامتیہ بن کر چکری کے گھاٹ پر چلہ کش ہوچکا ہے۔ محمد نوازشریف فرماتے ہیں ’لودھراں میں ثابت ہو گیا فیصلے امپائر کی انگلی نہیں عوام کے انگوٹھے کرتے ہیں۔عوام نے انتخابات 2018میں بڑے فیصلے کر نے ہیں، سترسال سے ملک میں جو ہورہا ہے اسے ختم کرنا ہے ‘ووٹ کا تقدس بحال ہوکر رہے گا‘لاڈ لے کو اب قوم سبق سکھائے گی۔اب قوم تمہیں سبق سکھائے گی۔‘
نوازشریف نے ایک بات سچ کہی کہ ’اللہ سے ڈرو رعونت اور تکبر نہیں ہونا چاہیے۔ مجھ پر ایک سو روپے کی رشوت کا الزام نہیں ہے۔‘تکبر تو واقعی اپنی ’بیڑی وِچ وَٹّے پان‘والی بات ہے۔ تکبر صرف اللہ پاک کو ہی زیبا ہے۔ نااہلی سے پہلے تک میاں صاحب خود اسی حالت میں نہیں تھے کیا؟ سوروپے میں اب کیا آتا ہے میاں صاحب، ان کی معلومات کے مطابق آلو بھی ’پانچ روپے کلو‘ میں ملتے تھے انہیں قوم اب تک تلاش کررہی ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خبردار کیا ’پاکستان میں صدارتی نظام چلانا خطرناک ہوگا۔‘بادشاہی نظام چلتا رہا، موروثی نظام چلتا رہے، ہماری آنے والی نسلیں ’چْپ چاپ‘ ووٹ کا ’جزیہ‘ دیتی رہیں۔ اس سے ملک ’مضبوط‘ ہورہا ہے، ’طاقتور‘ہورہا ہے اور ’ناقابل تسخیر‘ ہورہا ہے۔ واہ سرکار واہ۔ وزیراعظم دور اقتدارکے آخری ننانوے ایام میں صحت،تعلیم تعمیرات اورتوانائی کی پیداوارکے تقریباًپچیس نئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کاآغاز کرنے والے ہیں۔ اعلانات ہورہے ہیں کہ نوازشریف دورکے 37ترقیاتی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں لیکن افتتاح کی ’سعادت‘ موجودہ وزیراعظم صاحب کو مل رہی ہے۔ سینیٹ انتخاب کی تکمیل پرشاہد خاقان عباسی بطور وزیراعظم قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے نگراں وزیراعظم کے لئے صلاح مشورہ شروع کرنے والے ہیں۔ قائد حزب اختلاف دیگرپارٹیوں یا پارلیمانی گروہوں سے مشورہ کے پابند نہیں۔ مشورہ کریں تو یہ ان کی صوابدید ہوگی۔ کے پی کے میں عمران خان کے سابق اتحادی سابق وزیرداخلہ اور قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب شیر پائو نے عمران خان کی شخصیت اور پارٹی پالیسیوں کا کچھ ’سکین‘ کیا ہے۔ انکشاف کرتے ہیں کہ ’عمران خان نے ارب پتی امیدواروں کوسینٹ کاٹکٹ کس مقصدکیلئے دیاہے جوپارٹی سے تعلق بھی نہیں رکھتے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنے امیدوارسے پیسے لے کراپنے ارکان اسمبلی کودیئے جائیں تاکہ وہ کسی دوسری طرف نہ جائیں۔اس کے باوجود زیادہ پیش کش پر یہ ارکان دوسری طرف جائیں گے۔ صرف ٹکٹ کے لیے اندراج کرانے والے صوبے کی کیا خدمت کریں گے۔ 120دن تک کنٹینرپرچڑھ کرعمران خان کرپشن کیخلاف بولتے رہے لیکن سینیٹ انتخابات میں ارب پتیوں کو ٹکٹ دیناکرپشن نہیں لگتی۔، یار عزیز عدنان وزیر نے کہا تھا پاکستانی سیاست نمک کی کان ہے جو اس میں داخل ہوگا نمک کا ہوجائے گا۔ اس کالم نگار سمیت بہت سے خوش فہموں کو توقع تھی کہ کپتان خان یکسر مختلف ہے لیکن وائے بدنصیبی ایسا نہ ہو سکا۔ وہ بھی نمک کی کان میں نمک کا ہو گیا۔

مزیدخبریں