اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان اور ا مریکہ کے درمیان پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں سفارتی معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ فورس کا 6 روزہ اجلاس شروع ہو گیا۔ ادارے کا براہ راست رکن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان، دیگر رکن ملکوں میں اپنے لئے لابی کر رہا ہے جب کہ امریکہ، دو یورپی اتحادیوں، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ بھارت کی حمایت سے، پاکستان کے خلاف قرارداد لا کر پاکستان کو ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کروانے کی کوشش کرے گا جن کی نگرانی کی جاتی ہے۔ امریکی اقدام کا مقصد، جنوبی ایشیا کیلئے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی قبول کرنے کیلئے پاکستان کو دبائو میں لانا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی کوششوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دفتر خارجہ کی سپیشل سیکرٹری تسنیم اسلم کی طرف سے چند روز پہلے پاکستان میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا، بلجیئم،کینیڈا، چین، ڈنمارک، برازیل، فرانس، جرمنی، یونان، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، نیدرلینڈ، ناروے، پرتگال، روس، جنوبی افریقہ، سپین، سوئیڈن، سویٹزرلینڈ، ترکی، برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں اور ہائی کمشنرز کو ان اقدامات سے آگاہ کیا گیا جو پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ روکنے، فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے حوالے سے کئے گئے اقدامات، ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے سے روکنے، پاکستان کے اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بھی سفیروں کو تفصیل سے بتایا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا ہیڈکوارٹرز پیرس میں ہے، یہ ایک بین الاقوامی باڈی ہے جو اینٹی منی لانڈرنگ اور فنانسنگ فار ٹیررزم کے انسداد کے لئے معیار مقرر کرتی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 6 روزہ اجلاس میں پاکستان مخالف اقدامات کیلئے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت نے پاکستان کے خلاف ایکا کرلیا۔ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تحریک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پیش کی جائیگی۔ پاکستان کی طرف سے دوست ممالک سے رابطے کئے گئے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمشن شامل ہیں۔ عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہو گا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یورپی ممالک اور وزیر توانائی اویس لغاری نے ملائیشیا کا دورہ کرکے حکام سے ملاقاتیں کیں جبکہ پاکستانی سفیروں کو بھی ممبر ممالک کو اپنے موقف پر قائل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ خیال رہے اس سے قبل 2012ء سے 2015ء تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔
اسلام آباد (شفقت علی، نیشن رپورٹ) پاکستان کو دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے سے روکنے کیلئے چین کے علاوہ کسی ملک نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں حمایت کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ اس طرح امریکہ کے راستے میں فی الحال چین رکاوٹ ہے۔ وزارت خارجہ کے سینئر حکام نے نیشن کو بتایا ہے کہ پاکستان نے ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے تقریباً تمام ارکان سے سفارتی ذرائع سے رابطہ کیا ہے اور ان سے حمایت مانگی ہے تاہم چین کے علاوہ کسی ملک نے بھی امریکی قرارداد کے خلاف ووٹ نہ دینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ روس، جرمنی اور بیلجیئم سمیت بعض ممالک نے معمولی امید دلائی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ زیادہ تر رکن ممالک نے امریکہ کا ساتھ دینے کا کہا ہے۔ صرف ایک ملک چین نے تعاون کا یقین د لایا ہے جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نقصان سے بچنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے۔ اس طرح کی قراردادوں کا مقصد پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو نشانہ نہ بنائے، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی مانیٹر کرنا چاہئے جو پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔