FATF، فیصلے کی گھڑی اور عالمی اشرافیہ

پاکستان کی معیشت کی حالت اور اسکا مستقبل آجکل کا سب سے اہم موضوع ہے، خاص طور ہراس وقت جب پاکستان FATF کی گرے لسٹ میں شامل ہے اور اسکے بارے فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے۔آنیوالے چند دنوں میں ہونیوالا یہ فیصلہ پاکستانی معیشت اور عوام پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔اس سے قبل میں FATF کی اکتوبر 2019 کی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھا جائے اور اسے مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ FATF کی جانب سے دیئے گئے 27 نکاتی پروگرام پر مزید کام کر سکے۔اسکے بعد دسمبر میںہونے والی میٹنگ میں پاکستان نے اپنا دفاع کیا اور بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود کہ پاکستان کو اسکے ناکردہ گناہوںکی سزا دی جائے پاکستانی وفد کافی حد تک کامیاب رہا۔21تا 23 جنوری ہونیوالے اجلاس میںبھی پاکستان نے اپنی پوزیشن واضح کی اور ان 27 نکات میں سے 5 کے بارے میں پاکستان FATF کو مطمئن کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان نے باقی 22 نکات کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے 120 صفحات پر مشتمل جواب داخل کروائے جن میں 500 صفحات پر مشتمل حوالہ جات بھی شامل تھے۔حال ہی میں حافظ سعید کو پاکستانی عدالت سے ملنے والی سزا کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ یہ سب بھی دنیا کو مطمئن کرنے کی کوششو ں کا حصہ ہے اور پاکستان اپنی معاشی حالت کی وجہ سے اس بارے میں کسی حد تک اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے ورنہ اس سے قبل ضرورت پڑنے پر چین نے پاکستان کے کہنے پر حافظ سعیدکیخلاف قراردادیں پیش کرنے کی کوششوں کو ویٹو تک کیا تھا۔ اب FATF کے ورک گروپ میں اگلی میٹنگ 16 سے 21فروری تک متوقع ہے جس میں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائیگا۔ اس سلسلے میں تین ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بہتر خبر تو یہ ہو گی کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال لیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے کی طرح گرے لسٹ میں ہی رہے۔ ایسی صورت میں امید ہے کہ ہمیں جون یا ستمبر 2020 تک کا ٹائم دیا جائے گا تاکہ ہم اس سلسلے میں مزید بہتر اقدامات کر سکیں۔
پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کی قرارداد امریکہ کی ’’آشیرباد‘‘ سے اسکے مغربی اتحادیوں اور بھارت کی مدد سے پاس ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے افغانستان میں امریکی پالیسی یکسر مسترد کر دی تھی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید سرد مہر ی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس لسٹ میں شمولیت یا اس سے نام کا اخراج صرف معاشی پالیسیوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر پر دنیا کی سیاسی صورتحال اور مختلف ممالک کے باہمی مفادات بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں اس لیے اپنا کیس قانون کیمطابق پیش کرنے کے بعد اب ہماری حکومت اور خاص طور پر دفتر خارجہ کو سفارتی محاذ پر سرگرم ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ ممالک کی حمایت حاصل ہو سکے۔ بھارت تو پہلے ہی اس سلسلے میں پاکستان کیخلاف سفارتی جنگ کا محاذ کھولے بیٹھا ہے۔ ( خدا کرے کہ اس میدان میں بھی بھارت کا حشر 27 فروری والا ہو۔)
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے بارے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس بین الاقوامی تنظیم ، جس کا قیام 1989 میں عمل میں لایا گیا کا بنیادی مقصد پیسے کی غیر قانونی ترسیل روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس طرح اسکے مقاصد میں ایک اہم مقصد دہشت گردی کا سد باب بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دہشت گرد گروپوں کو اپنی کارروائیوں کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پیسہ ان کو غیر قانونی ذرائع سے موصول ہوتا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے 37ارکان ہیں جن میں 35 ممالک اور 2 علاقائی تنظیمیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس تنظیم سے بطور ’’مبصر‘‘ منسلک ہیں۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذیلی تنظیم ’’ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (APG) کے ذریعے اس سے وابستہ ہے۔FATFکے ممبر ممالک کسی بھی ملک کا نام اپنی جانب سے جاری کیے جانیوالی فہرستوں میں ڈالنے کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔ ان جاری کردہ فہرستوں میںمختلف ممالک کی چار اقسام میں درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ’’بلیک لسٹ‘‘ میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو مناسب قانون سازی کے لیے عالمی اداروں سے ’’عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ’’منی لانڈرنگ‘‘ میں ملوث ہوتے ہیں۔ دوسری ’’گرے لسٹ‘‘ میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن ان ممالک میں اس سلسلے میں قانون سازی ناکافی ہو۔اسکے بعد ایک ’’واچ لسٹ‘‘ جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہوتا‘ ان پر نظر رکھے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ’’واچ لسٹ‘‘ آفیشل طور پر شائع نہیں کی جاتی۔ یاد رہے کہ اس تنظیم کے اجلاسوں کی کارروائی خفیہ رکھی جاتی ہے۔ گرے یا بلیک لسٹ میں نام کی شمولیت رکوانے کیلئے تو تین ممالک کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب ایک بار نام اس لسٹ میں شامل ہو جائے تو اس نام کو نکلوانے کیلئے اس وقت کے ممبران کی تعداد کیمطابق کم و بیش 15ممالک کی حمایت درکار ہو سکتی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس تنظیم کا بنیادی کام دہشت گردوں کی مد د کرنیوالے ممالک پر نظر رکھنا نہیں بلکہ ’’منی لانڈرنگ‘‘ یعنی کالے دھن کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کیلئے قانون سازی کو فروغ دینا ہے۔ چاہے یہ پیسہ دہشتگرد تنظیموں کے استعمال میں آتا ہو یا رشوت یا چوری کا ہو۔بھارت سے کراچی اور بلوچستان میں امن امان خراب کرنے کیلئے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے اس کیلئے جو نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے وہ بھارت میں شروع ہوتا ہے ۔ FATF پاکستان اور اس جیسے ممالک پر تو چڑھائی کر رہا ہے لیکن جن ممالک میں بقول اسکے پاکستان سے پیسہ جاتا ہے ان ممالک اور ان ممالک کے بنکوں اور اداروں کے بارے میں یہ تنظیم ہمیشہ خاموش رہی ہے حالانکہ وہ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا یہ ترقی یافتہ ممالک’’عالمی اشرافیہ‘‘ ہیں اور سوال کرنے والوں کے لیے ’’شجر ممنوعہ‘‘ ہیں؟

ای پیپر دی نیشن