ہمارا معاشرہ روز بروز زوال پذیر ہورہا ہے اس لیے کہ جو اقدار ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے چھوڑی تھیں ان کو ہماری نئی نسل نے یکسر مسترد کرنا شروع کردیا ہے۔ اس میں کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ اب کوئی ان والدین سے پوچھے کہ آپ نے آخر کس مجبوری کے تحت اپنے بچوں کو موبائل خرید کر دئیے ہیں کہ جن کی وجہ سے نہ صرف ان کا تعلیمی نقصان ہورہا ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی ہمارے بچے تباہ ہورہے ہیں۔ موبائل دیگر معاشرے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن چونکہ ہماری قوم کا مزاج میں کسی بھی ایجاد کردہ چیز کا منفی پہلو زیادہ استعمال کرنا شامل ہے اس لیے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں قسم کی مختلف اقوام اور پھر آگے ان کے قبیلے پائے جاتے ہیں جن کا اپنا ایک مزاج ہے اور یہ مزاج زیادہ منفی چیزوں کو قبول کرتا ہے۔ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے محمد بن قاسم نے جب سرزمین سندھ کو فتح کیا تھا تو اس زمانے میں ملتان سندھ کا حصہ تھا محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی ہمیں قرآن پاک اور اسلام تو مل گیا لیکن ہمارے مزاج میں جو جنونیت اور حیوانیت شامل تھیں وہ آج تک ختم نہیں ہوسکی اور دوسری بات ہم نے اپنی عظیم الشان روایات کے جن کے ذریعے سے معاشرے میں امن اور محبتوں کو فروغ ملا کرتا تھا وہ ختم کردی ہیں صوفیا کرام نے ہندوستان کے خطے میں یہاں کی مختلف اقوام کے مزاج کے مطابق ان کی شدت کو ختم کرنے کے لیے مذہبی رواداری کے ذریعے جو امن اور محبتوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اُسے بھی ہم نے یکسر فراموش کر دیا ہے۔ صوفیا کے تمام طبقوں نقشبندی ، سہروردی، قادریہ ، چشتی میں شدت پسندی قطعاً حرام ہے میرے خیال میں اسلام زیادہ تر الہٰی انہی بزرگوں کی رواداری اور محبتوں کی وجہ سے پھیلا ہمارے معاشرے کی روایات اور زندہ دلی میلے ٹھیلے یہ سب چیزیں معاشرے کے اندر محبتوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بہر حال میلے اور تفریحی پروگرام کسی بھی معاشرے کی روایات کے ساتھ وہاں کے لوگوں کے کاروبار کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کا بھی ایک قدیم میلہ ہے جو آج سے دو سو سال پہلے قدیم ڈیرہ غازی خان سے چلا آرہا ہے ۔ اس تاریخی میلہ کو گذشتہ پانچ سالوں سے ضلعی انتظامیہ نے سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے بند کر دیا تھا۔ یہ تاریخی میلہ اسپاں 22فروری سے 28 فروری تک ہر سال منعقد ہوا کرتا تھا ۔ جس کے اندر گھوڑ دوڑ سے لے کر تمام تفریحی پروگرام منعقد کیے جاتے بلکہ سبی کے مشہور میلہ سے بھی بڑھ کر ہمارے ڈیرہ غازی خان کا یہ تاریخی میلہ منعقد ہوا کرتا تھا ۔
اس تاریخی میلہ میں بلوچی نسل کی گھوڑیاں اور اُونٹوں کا کاروبار بھی ہوا کرتا تھا ۔ اِس میلے کو نہ جانے کسی کی نظر کھا گئی اور یوں ہم ایک بڑی تفریحی سے محروم ہو گئے لیکن اس سال یہ تاریخی میلہ کمشنر نسیم صادق اور ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق کی خصوصی دلچسپی سے دوبارہ شروع ہو رہا ہے ۔ جس سے یقیناً ڈیرہ غازی خان روایات کو فروغ ملنے کے ساتھ ہماری ایک تاریخ دوبارہ زندہ ہو رہی ہے ۔ کمشنر نسیم صادق اپنی مدت ملازمت کے اِس آخری سال میں ڈیرہ غازی خان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے اچھے اقدامات کو یقیناً سہراہا جا رہا ہے ۔ لیکن شہریوں میں ان کے بعض کاموں کی وجہ سے کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں مانکہ کینال کی صفائی ستھرائی کا عمل جاری ہے لیکن اس کے ساتھ مانکہ کینال کے دونوں اطراف لگائے گئے لاکھوں روپے مالیت کے درختوں کو کاٹ کر ان کا صفایا کر دیا گیا ہے ۔ ویسے بھی مانکہ کینال کو جب چلانا ہی سیوریج کے لیے ہے تو پھر وہاں پر پارک بنانا اور کروڑوں روپے خرچ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ اسی طرح پورے شہر کا سیوریج سسٹم بُری طرح سے تباہ ہو چکا ہے ۔ کوئی سڑک بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے نیچے سیوریج کی لائینںبیٹھ نہ چکی ہوں ۔ لیکن صرف عارضی سیوریج کی لائن ڈال کر کام کو مکمل کیا جا رہا ہے ۔ ایک طرف سے لائن تعمیر کی جاتی ہے اور دوسری طرف سے وہ بیٹھ جاتی ہے ۔ اسی طرح عظمت پارک کے سامنے بینک روڈ جو عرصہ دراز سے سیوریج کی لائنیں بیٹھ جانے کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے ۔ اس کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا رہا ۔ جس سے شہریوں کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے ۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ شہر میں توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے تعمیراتی کاموں کا آغاز کریں ۔ اور کسی کو بھی بے روزگار اور بے گھر نہ کیا جائے ۔ چونکہ اسٹیٹ ہمیشہ عوام ہی کے ذریعے سے ہوتی ہے اور جمہوریت میں تو عوام ہی کی رائے کو ہمیشہ احترام دیا جاتا ہے ۔اس لیے کمشنر صاحب کو چاہیے کہ وہ عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرتے ہوئے انہوں سہولیات میسر کریں ۔
ڈیرہ غازی خان میں پولیس نے گذشتہ روز ایک دو سالہ اغوا بچی کو 15 گھنٹوں میں بر آمد کر لیا آر پی او عمران احمر اور ڈی پی او اسد سرفراز کی خصوصی محنت اور دلچسپی سے رزینہ نامی بچی کو برآمد کیا گیا یہ بچی ماڈ ل بازار سے گم ہوئی تھی جس کے بعد بچی کے والدین صدمے میں تھے لیکن ڈی پی او اسد سرفراز جو انتہائی فرض شناس اور با اخلاق پولیس آفیسر شمار ہوتے ہیں اُنہوں نے پورے ضلع کی ناکہ بندی کرا کے بچی کو برآمد کرایا اور گذشتہ روز اپنے آفس میں بچی کے والدین کو بلا کر جب وہ بچی اُن کے حوالے کی تو بڑا ہی جذباتی منظر تھا دکھی ماں کہ جس کی گود کو اجڑنے کے لیے نہ جانے کن لوگوں نے یہ گھناؤنا فعل کیا تھا ۔ ماں کو جب بچی دی گئی تو اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور لبوں پر پولیس کے ایک جانباز آفیسر کے لیے دعائیں تھیں ۔ واقعی اگر پولیس اسی طرح سے صحیح معنوں میں اپنے فرائض ادا کرئے تو پولیس کی نوکری کسی بھی عبادت سے کم نہیں ویسے ہم انسانوں کا اسی دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا ۔ کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریںاور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں کاش ہم سب اِسی فلسفے پر ہی عمل پیرا ہونا شروع ہو جائیں کہ جتنا ممکن ہو سکے ہم ایک دوسرے کی کسی نہ کسی طریقے سے مدد کریں اور ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو کر ساتھ دیںتو یقین جانیے کہ ہمارے معاشرہ میں محبتوں کا ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔ اور ہمارا معاشرہ بہت ہی کم عرصے میں ایک مہذب اور باوقار طرح سے دنیا کے سامنے آئے گا ۔