درخت کاٹ کر کاغذ بنا کر جب اس پر لکھا جاتا ہے کہ درختوں کی حفاظت کریں تو کیسا لگتا ہے ؟ بالکل ویسا ہی نا جیسے بچوں کو مادیت پرستی، جھوٹ ، بغض، مقابلے بازی اور کینہ سکھا کر معاشرے سے بھلائی کی امید رکھی جاتی ہے ۔ جو بنیادی تربیت بچے گھروں سے لیکر نکلتے ہیں اسی کا عکس معاشرے میں دکھاتے پھرتے ہیں ، گالی صرف سیاست دان کے حصے میں آتی ہے ،حالانکہ آج کل اس گالی کا حق دار ہر کوئی ہے۔ کینڈا کے سکولز میں بچوں کو سوک سینس بھی سکھائی جاتی ہے اور اخلاقیات پر بات بھی ہو تی ہے ۔ اپنے حقوق کی بات بھی ہو تی ہے اور ہر وہ چیز جو انہیں ایک انسان کی بہتری کیلئے درست لگتی ہے ، اپنی سمجھ بوجھ اور تقاضوں کے مطابق ، وہ اسے بچوں کو سکول میں ہی سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کسر رہ جائے تو والدین گھر میں سبق دہراتے رہتے ہیں کہ کوئی آپکے کام آئے تو شکریہ بولو ،آپ سے کسی کا نقصان ہو جائے ، یا کو ئی چھوٹی بڑی غلطی سر ذد ہو جائے تو فورا معافی مانگ لو ، ماں باپ بچوں سے بھی معافی مانگ لیتے ہیں کہ یہ حکم تو ہمارے نبی کا بھی ہے کہ جس کام کی تعلیم دو اس کا عملی نمونہ بھی دکھائو کہ بچے سنتے نہیں بلکہ دیکھتے ہیں ۔ مقام ِ حیرت ہے کہ اسلامی ممالک میں اخلاقیات کا فقدان ہے ۔ پاکستان بھی اسلام اسلام کرتا پیدا ہو ا تھا ، لا اللہ کا نعرہ ہر طرف تھا اور بعد میں بھی جس نے بھی تاجِ حکمرانی سر پر رکھا ساتھ ہی نعرہ تکبیر بھی بلند کردیا اورلوگوں میں اسلام اسلام کا شور ڈلوا دیا ۔ آج بھی نمازیوں کے نہ سجدے کم ہو ئے ہیں اور نہ ماتھوں پر پڑنے والی محرابیں ۔ مگر جسم میں سے روح نکل چکی ہے ۔ سکول ،اسلام کی اصل روح سے دور ہیں ، سرکاری سکول بچوں کو تعلیم نہیں بلکہ صرف ڈگریاں دے رہے ہیں ۔ زور ہے تو جسم پر ، روح کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں ، مدرسوں میں نہ تعلیم ہے نہ ڈگریاں ، انگلش میڈیم سکولز گدھوں پر دھاریاں بنا کر زیبرے بنا رہے ہیں اور پاکستانیوں کو ایک بات پر بہت ناز ہوا کرتا تھا کہ ہم اعلی اخلاقیات کے علمبردار، کوئی چاند سے اتری مخلوق ہیں جن میں احساس اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے اور گوروں کو سائنسی اور ہر قسم کی ترقی کرتے دیکھ کر جل کڑھ کر خود کو تسلی دیا کرتے تھے یا شائد ڈھٹائی سے اب بھی دیا کرتے ہیں کہ لو دیکھو ذرا کیسے سور کھا کھا کے ، بن روح کے جسم جو جذبوں سے خالی ہیں اور یہ مطلبی قسم کے لوگ ہیں جو بغیر غرض کے کسی کی طرف منہ کر کے تھوکتے بھی نہیں ۔خود غرض ، بے حس اور نہ جانے کونسے کونسے فتوے ان مغربی لوگوں کیلئے ہوا کرتے تھے ۔ مگر افسوس کے ساتھ آج کی تاریخ میں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے ہم جو آدھے تیتر آدھے بٹیر ہیں ہم کون ہیں ؟ نہ ہم نے کوئی دنیاوی ترقی کی اور اخلاقی جس کا جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے ، محبت ، رواداری ، برداشت ، صبر اور نہ جانے قران پاک کی کن کن آیتوں سے کون کون سا عطر نکال کر اپنے مردے پر چھڑکا کرتے تھے کہ پھول تمھارے تو کیا وہا ںخوشبو تو ہماری ہے ۔مگر سوچیں ۔۔ رک کر سوچیں اور بار بار سوچیں ۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیوں کھڑے ہیں ۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم ،مطلب ایک پاکستانی ، ایک مسلمان کی حیثیت سے ، اس زندگی میں علم اور اخلاق کی کوئی درجہ بندی ہو تو ہم سب سے آخر ی سیڑھی پر کھڑے ہیں اور شائد سیڑھی پر تو ہیں ہی نہیں زمین یا زیر ِ زمین ہیں۔۔ محبت ، برداشت ،اعلی ظرفی ،صبر اور خلوص یہ اثاثہ تھا جس کا ہم دعوی کیا کرتے تھے ۔۔کیا اب بچے یہ سبق گھروں سے لے کر نکل رہے ہیں ؟ کیا سکولز انہیں یہ تربیت دے رہے ہیں ؟ میرا مشاہدہ یہ ہے اس سے اگر کوئی اختلاف کرے تو مجھے دلی خوشی ہو گی کہ کچھ سچ ایسے ہو تے ہیں جن کیلئے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش یہ جھوٹ ہی ہوں ۔ مجھے اس معاملے میں اگر کوئی جھوٹا قرار دے دے تو میں خوشی سے جھوم اٹھوں گی۔ والدین بچوں کو خود یہ سبق سکھا رہے ہیں کہ صرف کامیاب ہو جاو طریقہ کوئی بھی اختیار کرو ۔ کیاایسا ہے کہ نہیں ؟جس سے ضرورت ہو صرف اس سے ملو ، بغیر پیسے ، یا بغیر عہدے کے لوگوں کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں ، انکے پیار یا خلوص کو چاٹنا ہے کیا؟ ایسا کہا جا رہا ہے یا نہیں ؟ جو کام کا بندہ ہو، مطلب جس سے کوئی بھی کام نکل سکتا ہو ، وہ کردار کو کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو۔ تم نے اسے بے تحاشا عزت دینی ہے۔کیا کسی ماں باپ نے آجکل بچوں کو یہ کہا کہ انسانوں میں برتری کا معیار تقوی ہے ؟ اسکے بعد مزاحیہ ترین بات یہ ہے کہ سب بیٹھ کر دوستوں میں ، رشتوں داروں میں ، فیس بک پر ، وٹس ایپ پر گروپس میں اس بات پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں کہ نجانے اب لوگ اتنے خود غرض ، حاسد اور کینہ پرور کیوں ہو تے جا رہے ہیں ۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ یہ سب اپنے ہی بوئے ہوئے بیج ہیں جن کا پھل بالکل وہی ہے جیسا بیج بویا گیا تھا ۔