عاشقین کا تذکرہ یکسر جدا ہے۔ عابدین و زاہدین ایک سمت جبکہ عاشقین کی صف ہمیشہ سے ممتاز رہی ہے۔ دل کو عشق کا آتش کدہ بنانے کے باوصف،عاشق اک ساعت میں کئی منزلیں طے کرلیتا ہے۔ عشق کی اک جست قصہ تمام کر دیتی ہے۔ خیالِ اجرو ثواب صد فی صد حق ہے مگر عاشق اس سے مبرا ہو کر آتشِ عشق میں کُود جاتا ہے۔ اسے فکرِ فردا نہیں ہوتی بلکہ اس کی فکر، فقر اختیار کر لیتی ہے اور اس کے فقر سے متلاشیانِ حق مستفیض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عاشقین اس جہاں سے گزر بھی جائیں تو ان کے فیض کے سمندر میں طغیانی تھمتی نہیں۔ یہ سمندر بپھرتا ہے اور بپھرتا چلا جاتا ہے۔ عاشقین میں سے ایک نام سید نصیرالدین نصیرؔ گیلانی گولڑویؒ کا بھی ہے کہ آپ ایسے عاشق کو باردِگر پانے کے لئے دنیا تاقیامت تلملاتی رہے گی۔ 14 نومبر 1949ء کو یہ زندہ رُود گولڑہ کی زمیں سے پُھوٹا، اپنے حصے کی بے آپ و گیاہ زمیں کو سیراب کر کے، 13 فروری 2009ء کو راہِ عدم سدھار گیا۔نصیرالدین نصیرؒ سید غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی کے فرزند ارجمند اور سید پیر مہر علی شاہؒ کے پڑپوتے تھے۔ آپؒ نے جنابِ مہر علی شاہؒ کی اولاد ہونے کا بخوبی حق
ادا کیا۔ آپؒ وارثِ علومِ مہر علی شاہ تھے، جس محفل میں قدم رنجہ فرماتے، مہر علی شاہؒ کی خوشبو سے وہ محفل معطر ہو جاتی۔ شخصیت اور سخن سے واقعتا یہ احساس ہوتا کہ خانوادہء مہر علی کے آفتاب سے چہار سُو روشنی سی روشنی، چاشنی سی چاشنی ہے۔ آپؒ کو شعر و سخن سے لگائو وراثت میں ملا۔ موروثی فیضان آپؒ کی ذات سے بخوبی جھلکتا تھا۔ آپؒ نے جید شعرا و ادبا اور انشاپردازوں کو پڑھ رکھا تھا۔ بطورِ خاص مولانا رومی و جامی، سعدی شیرازی، امیر خسروؒ، میرزا عبدالقادر بیدل ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے کسبِ فیض کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ کے کلام میں کہیں امیر خسروؒ اور کہیں بیدل جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں سید رئیس امروہوی رقمطراز ہیں ’’سید نصیرالدین نصیرؒ ایک ممتاز ترین روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کی قلندری اور درویشی میں کسے شبہ ہو سکتا ہے۔ صاحبزادہ کی فارسی رباعیات کا مطالعہ کریں تو عالم ہی دوسرا نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے قلب میں مرزا عبدالقادر کی آواز گونج رہی ہے اور ان کے لہجے میں بیدل ہی بول رہے ہیں‘‘۔ آپ ؒ بلاشبہ بے بدل شاعر تھے۔آپؒ کی غزل مجاز و حقیقت کا امتزاج ہے ۔ اردو، فارسی، عربی زبان کے الفاظ و تراکیب اور کہیں تکرارلفظی آپؒ کے کلام کو اور بھی نکھار بخشتی ہے۔ موسیقیت اپنی مثال آپ ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
؎سرِ طور ہو، سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی
سید نصیرالدین نصیرؒ ہفت زباں شاعر تھے۔ اردو، فارسی زبان میں کمال حاصل تھا۔ آپؒ کی سخن وری نے اہلِ سخن کو متاثر کیا، دنیائے ادب جس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ آپؒ کی تصانیف و تالیفات نظم و نثر پر مشتمل ہیں۔ نظم کے ضمن میں حمد، نعت، منقبت، غزل، رباعی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی جبکہ نثر کے باب میں قرآن مجید کے آداب تلاوت، فتوی نویسی کے آداب، اسلام میں شاعری کی حیثیت، مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب، عصری مسائل اور تصوف کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی۔ آپؒ کی تصانیف و تالیفات میں آغوشِ حیرت، پیمانِ شب، دیں ہمہ اوست، فیضِ نسبت، رنگِ نظام، عرشِ ناز، دستِ نظر اور راہ و رسمِ منزل ہا‘ نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ علاوہ ازیں مختلف موضوعات پر آپؒ کے خطبات اور تقاریر سماجی ذرائع ابلاغ پر موجود ہیں، جن سے نسلِ نو کسبِ فیض کرتی ہے۔ بلاشبہ آپؒ کی آواز قلوب میں ارتعاش پیدا کرتی، سامعین جھوم اٹھتے اور دلوں کو ہاتھ سے تھام کر کلام سنتے۔ حاضرینِ محفل عش عش کرتے۔ سخن سے علم و معرفت کی بارش برستی، عشق کی ایسی لَو جلتی جو قلوب کو منور کرتی چلی جاتی۔ لب ولہجہ ایسا کہ جیسے تِیر کمان سے نکل کر اپنے نشانے کو جا لے۔ حق کا عَلَم بلند کیا۔ آپؒ کے سامنے باطل تھرتھرانے لگتا۔ باطل عقائد زمیں بوس ہو جاتے۔ شخصیت میں وجاہت اور جراتِ حیدرِ کرار تھی۔ گفتگو قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتے۔ ایسے نادر نکات بیان کرتے جو کسی اور کی زبانی سننے کو کبھی سماعتوں سے ٹکرائے نہ ہوتے۔ آپؒ کا باطن عشقِ خدا و عشقِ مصطفیؐ سے جلوہ گر ہوتا جوحاضرین و سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ اثر انگیزی سر چڑھ کے بولتی۔ گدائے مدینہ ہونے کے ضمن میں کہا:
تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
قدرت نے اسے راہ دکھائی ترے در کی
اک نعمت عظمیٰ سے وہ محروم رہ گیا
جس شخص نے خیرات نہ پائی ترے در کی
آپ ؒ کی ذات سے عشقِ اہلِ بیت اطہار و اصحاب اور عشقِ وجہء تخلیقِ کائنات جھلکتا۔ آپؒ دین محمدی کے سچے وارث ثابت ہوئے۔ اپنے دادا مہر علی شاہؒ کے طریق کو تقویت دیتے ہوئے، نت نئے پُھوٹتے فتنوں کا سر کچلا۔ آپؒ کے سامنے کسی کو لب کشائی کی جرات نہ ہوتی۔ قول میں ایسا استدلال کہ اقبال کے لفظوں میں، عقل محو تماشائے لب بام رہتی۔ لوگوں کے قلوب میں حق کی جستجو پیدا کی۔صوفیہ عظام کے عشق سے عوام و خواص کو بہرہ مند کیا۔ آپؒ کے قول و فعل سے مسافرانِ حق کو راہِ راست عطا ہوئی۔ خواجہ خواجگان غریب نوازؒ سے نسبت کے تحت، آپؒ نے سلسلہ چشت کی بخوبی نمائندگی کی اور بہ احسن حق ادا کیا۔ آپؒ ایسے صاحبان مزارات میں سے ہیں جن کے فیضان میں انقطاع نہیں آتا بلکہ یہ مزید پھلتا پھولتا ہے۔ آپؒ کے فیضان نے معاشرے میں پنپتے اختلافات و تضادات کو اکھاڑ پچھاڑ دیا۔جنابِ نصیرالدین نصیرؔ کا زخمِ جدائی ہرا بھرا ہے، جس کی کسک جدا ہے۔ دل کے کسی کونے کھدرے میں ٹیس بے انتہا ہے اور آپؒ کے گزر جانے سے اب کہ ایک وسیع خلا ہے جسے پُر کرنے میں عشرے اور صدیاں بھی عاجز ہیں۔ عشاقِ نصیرؔ کے قلوب میں بپھرتی یہ ٹیس آہ کا رُوپ دھارتی ہے تو سنسان راہیں بھی گویا گریہ زار ہوتی ہیں۔نصیر ِ ملّت کے یہ مصرعے ہر ایک عاشقِ نصیرؔ کی زبان پہ جاری ہیں:
؎سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشنائوں کا پاس تھا، وہ وفاشعار چلا گیا