کراچی(پی پی آئی)میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ مغرب خود کو طاقت اور ثقافت کا مرکز سمجھتا ہے مگر میں نہیں سمجھتی کہ ہر سو مغرب کا طوطی بول رہا ہے۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوشی محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ ہم نے دنیا میں بادشاہتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ اس مرتبہ عروج کی ہوائیں جنوب (ایشیا) سے چل رہی ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں اپنی کتاب ’نیو کنگز آف دی ورلڈ‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فاطمہ بھٹو نے کہا کہبرطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب اضطراب اور افراتفری کا شکار ہے۔ اس کے باوجود مغرب اب بھی ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ہی سب سے برتر اور بصیرت رکھنے والی قوم ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ جنوب ( ایشیا) سب سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ کتاب بھی پچھلی تصانیف کی طرح سیاسی ہے اور اس میں پاور، نیو لبرل ازم اور گلوبلائزیشن پر بحث کی گئی ہے۔فاطمہ بھٹو نیکہا کہ کتاب لکھنے کا آغاز 2016 میں کیا تھا۔اگر آج لکھتی تو کچھ دیگر عنوان کتاب کا حصہ ہوتے۔ میں مقبول اور عام کلچر پر لکھنا چاہتی تھی۔ اسی طرح بالی ووڈ کو بھی کتاب میں شامل نہ کرتی کیوں کہ بالی ووڈ کو اب بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ ان کو آگے بڑھنے میں مشکلات درپیش ہوں گی مگر 2016 میں یہ باتیں میرے سامنے نہیں تھیں۔۔فاطمہ بھٹو نے کہا کہ پیرو میں انہیں جوہن نامی نوجوان ملا جو پاکستانی فلم اسٹار شان شاہد کا مداح تھا اور یہ بات میرے لیے انتہائی حیران کن تھی کہ پیرو میں بھی کوئی ہماری فلمیں دیکھ رہا ہے۔کتاب میں ترکی کو شامل کرنے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے مصنفہ نے کہا کہ ٹیلی ویڑن کے ناظرین تک رسائی میں امریکا کے بعد ترکی سب سے آگے ہے۔فاطمہ بھٹو نے کہا کہ وہ کابل میں پیدا ہوئیں اور شام میں پلی بڑھیں مگر اس کے باوجود ایشیاء ان کے دل کے ایک گوشے میں موجود رہا۔مصنفہ نے کہا کہ نیو کنگز آف دی ورلڈ اس لئے ان کیلئے دلچسپ ہے کہ اس میں ایشیا کی بات کی گئی ہے اور ہم ایشئین ہیں۔ ہم ( پاکستان) ایشیا کا ہراول دستہ تو نہیں مگرایشیا کی ثقافت ہماری ثقافت ہے اور ایشیا میں ابھرنے والی کہانیاں ہماری اپنی کہانی ہے۔سرمد کھوسٹ کی فلم زندگی تماشا پر پابندی سے متعلق بات کرتے ہوئے مصنفہ نے کہا کہ دنیا میں کہیں ایسا ملک نہیں ہے جہاں ایک فلم سنسر بورڈ سمیت تمام متعلقہ اداروں سے کلیئر قرار پانے کے باوجود اسکرین پر نمودار ہونے سے روک دی گئی ہو اور جہاں ایک گروہ یہ فیصلہ کرے کہ لوگوں کو کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔فاطمہ بھٹو نے کہا کہ ہمیںاختلاف رائے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی کے جذبات مجروح نہیں ہونے چاہئیں مگر زندگی تماشا میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم فلم پر پابندی عائد کرنے کے بجائے اس کو دیکھ کر اختلاف کریں۔