قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس، مہاجرین کو واپس لانے پر غور

 اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس چیئرمین ساجد خان کی زیر صدارت ہوا جس میں جنوبی وزیرستان سے  کے بد امنی کے دوران افغانستان ہجرت کرنے والوں کو واپس لانے کیلئے اقدامات امورزیر غور کیا گیا ۔ پی ڈی ایم حکام نے کہاکہ مہاجرین کو واپس لانے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کیساتھ 2018کے بعد سے کوئی اجلاس نہیں ہوا ۔ حکام دفتر خارجہ نے کہاکہ مہاجرین کی واپسی کیلئے ضروری دستاویزات کی تیاری کیلئے دفتر خارجہ کردار ادا کرتا ہے،یو این ایچ سی آر کے اعدادوشمار کے مطابق 2019میں 72ہزار مہاجرین واپس آئے،اسٹیک ہولڈرز کی کلیئر ہدایت کے بعد افغان حکومت سے بات کی جائے گی۔ سیکرٹری سیفران نے کہاکہ بکا خیل کے لوگوں کی افغانستان میں بھی زمینیں ہیں ۔ رکن کمیٹی افضل کھوکھر نے کہاکہ ابھی تک دفتر خارجہ کو وزیراعظم آفس سے ایکشن کیلئے ڈائریکشن نہیں ملی۔ حکام دفتر خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سفارتخانے یا قونصلر سروس حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے،جو اپنی شہریت ثابت کر کے واپس آنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔  رکن کمیٹی گل ظفر خان نے کہاکہ وائٹ ہائوس میں جانے سے افغانستان میں پاکستانی قونصلیٹ میں جانا زیادہ مشکل ہے،افغانستان تو دور کی بات باجوڑ کے نادار آفس میں اپنے آپ کو پاکستانی ثابت میں مشکلات ہیں۔ ڈی جی دفتر خارجہ نے کہاکہ افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے اور قونصلیٹ کے پاس شورش کے دوران افغانستان جانیوالوں کا ڈیٹا نہیں،یو این ایچ سی آر کی مدد لی جاتی ہے۔ ا مفتی عبد الشکور خان نے کہاکہ ایف آر ٹانک کے متاثرین کے گھروں کو نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا،جندولہ کے منہدم مسجد کی جگہ پارک بنایا گیا ہے۔ این ڈی ایم حکام نے بتایاکہ متاثرین کو امداد کیلئے سروے کیا گیا،کمیٹی نے ضرب عضب کے امداد سے محروم رہنے والے علاقوں کو بھی امداد فراہم کرنے کیلئے  سروے کی سفارش کر دی۔ اجلاس کے دور ان فاٹا کے طلبہ کیلئے میڈیکل کالجز میں کوٹے کا معاملہ زیر بحث آیا ۔ پی ایم سی حکام نے بتاکہ پی ایم سی نے 265 سے بڑھا کر 506کر دی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن