پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
مشاہد اللہ خان وہ اپنی طرز کے ایک منفرد سیاستدان تھے۔جنہوں نے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے کرائے کے مکان سے اٹھ کر سیاست کی اعلیٰ حیثیت تک کا سفر کیا لیکن اپنے دامن پر کرپشن کا ایک داغ بھی نہ پڑنے دیا۔جس اجلے لباس کے ساتھ انھوں نے ا س سفر کا آغاز کیا تھا اسی اجلے لباس میں ملبوس ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔وہ ایسے دور میں سیاست کے میدان میں داخل ہوئے جہاں پر بڑی گاڑیوں کا چلن تھا۔لیکن انہوں نے اپنی زندگی کا سارا سفر ایک سادہ سی گاڑی میں بیٹھ کر ہی طے کیا۔مشاہد اللہ خان پاکستان کے ان سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی ایک نظریے کے مطابق گزاری۔وہ آمریت کو ریاست پاکستان کے لیے تباہ کن تصور کرتے تھے اور ڈکٹیٹر شپ کی کسی بھی صورت کے سخت خلاف تھے۔ان کی زندگی کا سب سے مشکل وقت وہ تھا جب 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کو حکومت سے معزول کیا گیا اور ان کی گرفتاری کے لیے مختلف جگہوں پر تلاش جاری تھی۔لیکن انہوں نے ایسے انداز میں گرفتاری پیش کی جو باقی سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک مثالی نمونہ بن کر رہے گی۔وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں اکثر اوقات مارشل لا کوخوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی توانا آواز بلند نہیں ہوتی۔مارشل لاء کو خوش آمدید کہنے والے لوگوں کے گناہ کا کفارہ انہوں نے 13 اکتوبر 1999 کو یوں ادا کیا کہ کراچی کے ایک معروف چوک میں آمریت کو للکارا، اس کے خلاف نعرے بلند کیے اور اس انداز میں اپنی گرفتاری پیش کی کہ اس وقت مسلم لیگ کے مردہ تن میں جان ڈال دی۔راقم کو متعدد مرتبہ مشاہد اللہ خان کے ہمراہ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔پارلیمنٹ کی راہداریاں ہو یا اقتدار کی غلام گردشیں۔ہر مقام پر ان کی شفقت و محبت کی سطح وہیں رہی جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو حق بات کسی کے بھی منہ پر کہنے کی جرأت رکھتے تھے۔مسلم لیگ ن کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوامی گلی کو چوں میں لانے کا سہرا اگرچہ نواز شریف کے سر ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس میں بھی ان کا بنیادی کرداراور مشورہ موجود تھا۔
مشاہداللہ خان نے سفید پوش اور متوسط گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے صف اول کے سیاستدانوں میں جگہ بنائی،اور ثابت کر دیاکم مالی وسائل کے ساتھ اگر کسی نے سیاست کرنی ہے تو ایسا ممکن بھی ہے۔اقتدار سے محرومی کے بعد میڈیا اور پارلیمان کے ایوانوں میں جن مسلم لیگیوں کی آواز گونجتی رہی ان میں پرویز رشید اور مشاہداللہ خان کا نام ایک ساتھ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔مشاہد اللہ خان ایک طرف تو اشعارسے حزب اقتدار پر ایسی چوٹ کرتے کہ جس کا تذکرہ دیر تک میڈیا میں موجود رہتا تو دوسری طرف پرویز رشید اپنی مدلل سیاسی گفتگو سے ملکی سیاست کے کئی باب کھول دیتے ۔وہ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔نواز شریف مشاہد اللہ خان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے یہاں تک کہ صدر ممنون حسین کی بطور صدر نامزدگی میں بھی انکی حتمی رائے کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیاگیا۔وہ کچھ عرصہ محترمہ مریم نواز کی سیاسی تربیت میں بھی شامل رہے اور اس مقصد کے تحت لاہور میں قیام رکھا۔بعد میں انہوں نے میاں نواز شریف کو رائے دی کہ مریم بی بی کو انکی فطری صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔مشاہداللہ خان کی برجستگی اور بزلہ سنجی کا کوئی جواب نہ تھا۔سینٹ اور سینٹ سے باہر اتنی دوٹوک بات کرنے والا بندہ کم ہی ملے گا۔وہ ملکی سیاسی تاریخ کا با نظر غائر مشاہدہ رکھتے تھے اور انکی گفتگو تاریخی حوالوں اور ان کے مطالعہ پر مبنی ہوتی۔سینٹ میں کی گئی ان کی تقاریر کاپارلیمان کے ریکارڈ سے ہمیشہ حوالہ دیا جاتارہے گا۔
مشاہد اللہ خان کے سفر زندگی پر ایک نظر۔
مشاہد اللہ خان کی پیدائش 1953 میں راولپنڈی میں ہوئی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی سے حاصل کی اورپھر کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔اس وقت وہ ایوی ایشن کمیٹی کے چیئرپرسن تھے۔ ہاؤس آف بزنسز کی ایڈوائزری کمیٹی، پارلیمینٹری کمیٹی برائے کشمیر، پارلیمینٹری کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن آف پاکستان کے تقرر سے متعلق کمیٹی کے ممبر سمیت کل بارہ کمیٹیوں کے رکن بھی تھے۔ وہ 1975 سے 1997 تک پی آئی اے کے ٹریفک سپروائزر رہے۔ 1997 سے 1999 تک افرادی قوت اور سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق وزارت میں ایڈوائزر رہے۔ 1999 میں کراچی میونسپل کارپوریشن میں ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن پھر پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لا لگائے جانے کے بعد تین ماہ بعد ہی انھیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ وہ 1994 سے 1999 تک مسلم لیگ لیبر ونگ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائزرہے۔ سنہ 2000 سے 2001 تک وہ مسلم لیگ ن کے چیف کوآرڈینیٹر رہے۔ سنہ 2002 سے لے کراب تک وہ مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر تھے۔مشاہد اللہ خان 1990 میں مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہوئے اور 2009 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2015 میں دوبارہ سینیٹر بنے۔
تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں مشاہد اللہ خان مسلم لیگ ن کی طرف سے تیسری مرتبہ جنرل نشست پر امیدوار تھے۔جنوری 2015 میں نواز شریف کے دور حکومت میں انہیں چیئر مین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام مقرر کیا گیا ،ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا تاہم ا نہوں نے اس عہدے کو قبول نہیں کیا۔بعد ازاں انہیں وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی بنایا گیا تاہم فوج کے اعلیٰ عہدیداروں سے متعلق ایک متنازع انٹرویو پر انہیں مستعفی ہونا پڑا۔شاہد خاقان عباسی کے دور میں انہیں دوبارہ وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی بنایا گیا تھا۔
مشاہداللہ کی وفات پر رد عمل
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ ’مشاہد اللہ خان نواز شریف کے وفادار اور غیر معمولی ساتھی تھے ، ان کی وفات پر افسوسناک خبر سن کر بے حد صدمہ پہنچا ، ان کے پدرانہ انداز اور محبت کو کبھی بھول نہیں پاؤں گی۔ خدا انھیں اپنی جوار رحمت میں رکھے۔آمین۔‘
مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے اپنے پیغام میں کہا ہے پاکستان مسلم لیگ ن ایک بہادر، وفادار اور انتہائی زیرک پارلیمینٹیرین سے محروم ہو گئی۔مسلم لیگ کے رہنما سنیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ وہ ایک جانے مانے ٹریڈ یونینسٹ تھے، پی آئی اے کی ایئر لیگ کے بانی، اور متفرق خوبیوں کے مالک تھے۔قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مشاہد اللہ کے اہلِ خانہ سے تعزیت میں ان کی وفات کو ایک بڑا نقصان قرار دیا۔
حرف آخر۔۔۔۔۔
مشاہد اللہ خان کوئی روائتی سیاست دان نہیں تھے بلکہ وہ خالص نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتے تھے۔ اپنے دلیرانہ اور بے باک انداز بیان کی وجہ سے وہ میڈیا اور پارلیمان کے اندر دونوںجگہ مقبول شخصیت تھے۔وہ حقیقی معنوں میں ایک جمہوری شخص تھے ،ملک کے تمام سیاسی جماعتوں میں انکا یکساںاحترام تھا حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔انکی وفات سے پاکستان کی پارلیمان اور جمہوری قوتیں ایک توانا آواز مدبر سے محروم ہوگئی ہیں۔پاکستان کی سیاست اور پارلیمان کی تاریخ میں انکو ہمیشہ یاد رکھا جاے گا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا