حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ 

سید خالد یزدانی
 برصغیر میں قافلہ شریعت وطریقت کے سرخیل اور امام بلاشبہ حضرت داتا گنج بخشؒ ہیں ، لیکن آپ ؒ کے فیوضیاتِ علمیہ وروحانیہ کو برصغیر کے طول وعرض میں پہنچانے والی ہستی خواجہ خواجگان ،والی ہند، امام الاولیاء ، عطائے رسولؐ الشیخ السیّد معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ،  ہیں ، جنہوں نے برصغیر میں تشریف فرما ہوتے ہوئے ، سب سے پہلے حضرت داتا صاحبؒ کی بار گاہ میں چلہ کشی کا اعزاز پایا اور پھر دنیا پر اس حقیقت کو منکشف کیا :
گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
 حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ،کے یوم وصال 6رجب المرجب کی مناسبت سے داتاؒ دربار کے ماہانہ خانقاہی معمولات میں "چَھٹی شریف"کا ختم، قدیم روایت کے مطابق ہر ماہ ،باقاعدگی سے انعقاد پذیر ہوتا ،اورآ پ کے سالانہ عرس کی تقریبات کا باقاعدہ اہتمام بھی عمل میں آتا ہے ۔ امسال،آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک 5،6رجب المرجب 1442ھ بمطابق 18 اور19فروری 2020ء (جمعرات ،جمعۃ المبارک) لاہور میں حضرت داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ پر روایتی تزک واحتشام کے ساتھ انعقاد پذیر ہے ، جس میں  صاحبزادہ پیر سیّد سعیدا لحسن شاہ ، وزیر اوقاف ومذہبی امور پنجاب ،جناب محمدعامر جان ،سیکرٹری/چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف پنجاب،جناب ڈاکٹر طاہرر ضا بخاری،ڈائریکٹرجنرل مذہبی اموراوقاف پنجاب، ڈاکٹر محمدسلیم مظہر،پرووائس چانسلر ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور، ڈاکٹر سلطان شاہ ،چیئرمین شعبہ عربی وعلوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی ، ڈاکٹرظفر اقبال نوری ، چیئرمین نیشنل امن پیس (امریکہ )، ڈاکٹرغلام معین الدین نظامی ،لمز یونیورسٹی ،لاہور،  خواجہ غلام قطب الدین ،چیئرمین نیشنل مشائخ کونسل پاکستان،  مفتی محمد رمضان سیالوی ، خطیب داتا دربار ، سرور حسین نقشبندی اور قاری محمد رفیق نقشبندی  تشریف فرما ہوئے ۔
 سرزمین پاک وہند اور بالخصوص خطۂ پنجاب کو روشنی اور تابندگی عطا کرنے والی ہستی مظہر العلوم الجلیہ و الخفیہ ، منبع فیوض و برکات الشیخ السیّدحضرت علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔۔۔ مگر اس آستان کے فیض کو برصغیر کے شرق وغرب اور جنوب وشمال میں روشناس کرا کے عقیدتوں اور محبتوں کے چراغ جس ہستی نے فروزاں کیے وہ خواجۂ خواجگان،  معین الحق والدین حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی ؒ ہیں۔حضرت سلطان الہند ؒ سلسلۂ چشتیہ کے وہ سربرآور دہ شیخ ہیںجن کا نام ہی روحانی منزلوں کا نقیب ہے۔   سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین حسن سجزی اجمیریؒ، خاندانِ سادات میں سے تھے۔ آپ ؒ کے والد بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ؒتھا جو ساداتِ حسینی سے تعلق رکھتے تھے اور والدہ سیدہ اُم الورع بی بی ماہِ نورؒ ،ساداتِ حسنی سے تھیں۔ گویا خواجہ معین الدین چشتی  ؒ  ’’نجیب الطرفین ‘‘ سیّد تھے۔ ’’مرأۃ الاسرار‘‘ میں آپ کا شجرۂ نسب اس طرح منقول ہے:
 خواجہ معین الدینؒ بن سیّد غیاث الدین حسنؒ بن سیّد احمد حسنؒ بن سیّد طاہر حسنؒ بن سیّد عبدالعزیزؒبن سیّد ابراہیمؒ بن امام علی رضا ؒبن امام موسیٰ کاظمؒ بن امام جعفر صادقؒ بن امام محمد باقر  ؒبن امام زین العابدین ؒبن امام حسینؓ بن امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہؓ۔
 حضرت خواجہ معین الدین ؒکی ولادت خراسان کے ایک قصبے ’’سیستان‘‘ جسے عرب ’’سجستان‘‘ کہتے ، میں 534ھ کو ہوئی۔ تاریخ ولادت میں قدرے اختلاف ہے۔ ’’مناقب المحبوبین‘‘ میں 537ھ ہے، مگر وحید احمد مسعود جو ’’سوانح خواجہ معین الدین چشتی‘‘ کے مؤلف ہیں، نے مختلف ماخذ سے تقابل کے بعد 534ھ کو مستند قرار دیا ہے ،اور زیادہ تر اسی رائے کو درست سمجھا گیا ہے۔’’ سجستان‘‘ کی نسبت سے’’ سجزی ‘‘کہلائے اگرچہ بعض روایات میں’’ سنجری‘‘ کہا گیا۔ ڈاکٹر علامہ محمداقبال ؒ نے بھی ’’پیر سنجر‘‘ ہی کہا۔ حضرت خواجہؒ کے والد نیک طینت بزرگ تھے۔ اُن کی صحبت نے ابتداء ہی سے دین کا شغف عطا کر دیا تھا۔ ابتدائی تعلیم خراسان ہی میں پائی ۔ ابھی مدارجِ علم طے ہی ہو رہے تھے کہ والد گرامی کا انتقال ہو گیا۔ پندرہ سال کی عمر تھی کہ خواجہ بزرگؒ اپنے والد مرحوم کی وراثت جو ایک پن چکی اور ایک باغ پر مشتمل تھی کے مالک ہو گئے۔ چند روز ہی گزرے تھے کہ حضرت خواجہؒ اپنے باغ میں موجود تھے، اچانک ایک درویش ابراہیم قندوزی مجذوبؒ اُدھر آنکلے۔ حضرت خواجہ پیڑوں کو پانی دے رہے تھے انہیں دیکھتے ہی دَوڑ پڑے،ان کی خدمت میں انگور پیش کیے، درویش نے اپنے لعابِ دہن سے مَس کرکے انگور آپ کو دئیے جو آپ نے کھالیے۔ ’’سیرالعارفین‘‘ کے مصنف حامد جمالی  ؒ نے ’’کھلی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ کھاتے ہی طبیعت پر ایک انقلاب آفریں اثر ہوا۔ جائیداد سے دل اُچاٹ ہوا، اسی لیے تقسیم کر دی اور گھر سے سالکِ راہِ حق بن کر نکل پڑے۔ بخارااور سمرقند کے مدارس سے تعلق پیدا ہوا، قرآنِ مجید حفظ کیا اور علومِ دینیہ سے تعلق میں مزید نکھار آیا۔ پھر متلاشیٔ حق بن کر طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ عراق کے سفر کے دوران ’’ہرون‘‘ جو نیشاپور کا ایک قصبہ ہے پہنچے ،تو حضرت خواجہ عثمان ہارونی  ؒ سے ملاقات ہو گئی ۔ یوں سمجھئے تلاشِ حق میں سرگرداں وجود کو سایۂ رحمت مل گیا، مرید ہوئے اورمصاحبتِ شیخ کے فیوضات سے بہرہ مند ہوئے۔ حضرت عثمان ہارونی  ؒ حج پر گئے تو آپ ؒساتھ تھے، حرم کے سامنے بازو پکڑ کر شیخ نے عرض کیا :’’مَیں اس کو سپردِ خدا کرتا ہوں‘‘۔ آواز آئی: ’’معین الدین کو ہم نے قبول کیا۔‘‘
  مدینہ منّورہ کی حاضری بھی اسی پروقار رفاقت میں ہوئی ۔تقریباً بیس سال آپ نے صحبتِ شیخ میں گزارے، ریاضت و نفس کشی کے کئی مراحل سے گزرے اور آخر اپنے شیخ سے خرقۂ خلافت کا اعزاز حاصل کیا۔ روایت ہے کہ باون برس کی عمر تھی جب آپ نے خرقۂ خلافت پہنا۔ اللہ! اللہ!، اس قدر جانکاہی اور اس درجہ استقامت، سچ یہ ہے کہ اس طویل رفاقت اور پُر خلوص اتباع نے ہی ’’سلطان الہند‘‘ بنایا۔ 
پروفیسر ٹی ۔ ڈبلیو۔ آرنلڈ نے لکھا ہے کہ:
’’رسول اللہ ؐ حضرت خواجہؒ کے خواب میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کا ملک تیرے سپرد کیا ہے۔ وہاں جائو، اور اجمیر میں سکونت اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی امداد سے دین اسلام تیرے اور تیرے ارادت مندوں کی پرہیزگاری سے اُس سرزمین میں پھیل جائے گا۔ـ‘‘
 جب حضرت عثمان ہارونی  ؒ یا ہرونی گوشہ نشین ہو گئے تو آپ پھر سفر پر روانہ ہو گئے۔ معلومات اور تجربے کی وسعتوں کے ساتھ آپ نے برصغیر کا رُخ کیا ، یہ بھی کہا گیا کہ مدینہ منّورہ میں اپنے شیخ کے ساتھ قیام کے دوران ہی اس ہجرت کا اشارہ پا لیا تھا۔ غزنی کے راستے برصغیر میں داخل ہوئے، پہلا پڑائو لاہور تھا کہ یہ شہر حضرت داتا گنج بخشؒ (م465ھ) کی گنج بخشیوں سے فیض یاب ہو چکا تھا۔ محمد صالح  کمبوہ مؤلف ’’شاہجہاں نامہ‘‘ کی روایت کے مطابق آپ 587ھ یا 588ھ میں لاہور تشریف لائے، یہاں حضرت شیخ حسین زنجانی  ؒ سے ملاقات ہوئی اور حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر آپ کے قدمین کی جانب چلہ کشی کی ۔دہلی میں آپ کی اقامت گاہ عقیدت مندوںکے لیے جائے امان تھی اسی لیے مسلسل اژدہام رہنے لگا، دریائے وحدت کے شناور اس کثرت کو پسند نہ کرتے تھے اسی لئے دہلی چھوڑ کر اجمیر چلے گئے۔
 اجمیر نورِ اسلام سے آگاہ ہو چکا تھا مگر غلبہ ابھی تک کفر کو حاصل تھا اس لئے مقامی آبادی کی طرف سے مخالفت ہوئی، ہر طرح کا دکھ دیا گیا مگر درویشِ خدا مست نے اجمیر کو  مرکزِ فلاح و اصلاح بنانے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ مقابلے بھی ہوئے، علم اور روحانیت کے معرکے بھی برپا ہوئے مگر استقامت کاپیکر اس قوت سے مخالفت کو  رد کرنے لگا کہ وہ اجمیر جو چوہان راجوں کے دبدبے تلے کراہ رہا تھا۔ اخوت و محبت، استقامت و استقلال اور علم و حکمت کا مرکز قرار پایا۔ اللہ کا وہ ولی جو ہمیشہ یہی دعا کرتا رہا کہ ’’اے بارالٰہ جہاں کہیں درد و  الم ہے میرے سینے میں بھر دے‘‘ ۔ تقریباً چالیس سال اجمیر کی سر زمین حضرت خواجہ ؒ کے فیوضات سے بقعۂ نور بنی رہی۔ پورے برصغیر کی نظریں اس جانب اٹھنے لگی تھیں اور صدق و صفا کے طلب گار اس جانب ہر وقت رواں دواں رہنے لگے تھے۔ اجمیر ایک مرکزِ فلاح تھا۔ ایک منبعِ کرامات و عنایات تھا، توحیدِ حق کا نقیب اور عظمت رسالت کا پاسبان تھا۔ 
 برصغیر کی فضا پر ماورائیت کا قبضہ تھا۔ ویدانت کا تصور مقامی آبادی کو عجب سرمستی دے گیا تھا۔ اسلام برصغیر میں داخل ہوا تو ملفوف جدلیت نے شب خون مارنا چاہا۔ چلہ کشی کا غیر انسانی روّیہ، ہر تعلق سے لاپرواہ کر گیا تھا۔ مسلمان مرکز سے دور تھے اور اُن کے شب و روز منتر پڑھنے والوں اور اشلوک الاپنے والوں کے قرب میں گزرتے تھے۔ بت پرستی کو حلول کا جامہ اوڑھایا گیا تھا۔ تاریخِ برصغیر شاہد ہے کہ مقامی آبادی پورے اعتماد اور حد درجہ قوت کے ساتھ دینِ توحید کو مٹانے کیلئے کمر بستہ ہو گئی تھی، یہ تو حضرت خواجہ ؒ اور آپ کے ساتھی دیگر اکابر صوفیاء کا فیض ہے کہ بت پرستوں کا پرفریب استدلال نگوں سار ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ تقویمِ عقاید اور تحسینِ اعمال کا فریضہ انہی اکابر کی محنت کا ثمر ہے، روایت ہے ایک دن آپ ایک مندر کے اندر چلے گئے وہاں سات ہندو پوجا میں مشغول تھے آپ کاپر جلال چہرہ دیکھا تو نڈھال ہو کر قدموں پر گر پڑے اور مسلمان ہو گئے۔ حضرت خواجہؒ ان سب کو حمید الدین کہہ کر پکارتے تھے۔ ان میں سے ایک نے ناگور میں سکونت اختیار کر لی اور حمیدالدین ناگوری  ؒکہلائے۔ 
 برصغیر کی آبادی ذات پات کے گرداب میں اس قدر اسیر ہو چکی تھی کہ بنی آدم ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان وسیع خلیج حائل تھی۔’’ برہمن ‘‘ہرآسائش کا حقدار تھا تو ’’شودر ‘‘ہر آسائشِ حیات سے محروم، وہ اس قدر کم تر تھا کہ اُس کے جسم کو ہی غلیظ سمجھا گیا۔ اُس کا کان ناپاک تھا اسی لئے ’’وید ‘‘کی کوئی سطر بھی اُس کے کان تک پہنچنا حرام تھا۔ وہ پلید زبان رکھتا تھا اسی لئے ’’وید ‘‘کے کسی حرف کو ادا نہیں کر سکتا تھا۔ تاریخِ ہند گواہ ہے کہ ایک ’’شودر ‘‘نے راہ گزرتے بغیر کسی ارادے کے وید کے کلمات سُن لئے۔ یہ اگر جرم بھی تھا تو اس میں اُس کا ارادہ تو شامل نہ تھا وہ تو راہ گیر تھا اُس کا قصور کیونکر، مگر’’ منوجی ‘‘کا چلایا ہوا تیر اس قدر زہر آفریں تھا کہ وقت کے اوتار نے اُس شودر کے کانوں میں پگھلا ہوا  سیسہ ڈالنے کا حکم دیا۔اس فضا میں خواجۂ   اجمیر ؒ نے عظمتِ انسانیت کا پرچم بلند کیا۔ اپنے متعین کو حُسنِ اخلاق کی دولت اور مساواتِ نسلِ انسانی کا وہ درس دیا کہ گردابِ ظلم میں جکڑی پڑی مخلوق کو جینے کا حوصلہ ملا۔ آپ نے اپنے متوسلین کو حکم دیا تھا کہ وہ :
’’اپنے اندر دریا کی سی فیاضی، سورج جیسی گرم جوشی اور زمین جیسی مہمان نوازی پیدا کریں اس کے لیے  آپ نے برملا کہا کہ علم کا حصول لازم ہے ،آپ روحانی ترقی کے لیے علم کو ناگزیر سمجھتے تھے‘‘۔
 ’’سیرالاولیاء ‘‘میںخواجہ نظام الدین اولیائؒ کی زبانی تحریر ہے کہ جب خواجہ غریب نواز ؒاجمیر تشریف لائے اس وقت ہندوستان کا بادشاہ’’ رائے پتھورا ‘‘ اجمیر میں قیام پذیر تھا۔جب خواجہؒ نے بھی اجمیر میں سکونت اختیار کر لی تو ’’رائے پتھورا ‘‘اور اس کے مقربوں کو یہ بات ناگوار گزری تاہم خواجہ کی عظمت و کرامت کو دیکھ کر دم نہ مار سکتے تھے۔ لیکن خواجہؒ کے وابستگان میں سے ایک شخص جو’’ رائے پتھورا ‘‘کے پاس ملازم تھا، اس کو ایذا پہنچانا شروع کر دی۔ اس مسلمان نے تنگ آکر خواجہ کے پاس شکایت اور فریاد کی۔ خواجہؒ نے ’’رائے پتھورا ‘‘سے اس کی سفارش کی، لیکن پتھورا پر آپ کی سفارش کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اس نے الٹا خواجہؒ  کی نسبت جلی کٹی باتیں کہیں۔ جب اس کی یہ باتیں خواجہؒ کے کانوں تک پہنچیں تو آپ کی زبانِ مبارک سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ ’’پتھورا کو ہم نے زندہ گرفتار کر کے لشکرِ اسلام کے حوالے کر دیا ہے۔‘‘ انہی دنوں سلطان شہاب الدین محمد غوری کا لشکر دوسری مرتبہ غزنی سے ہندوستان پہنچا۔’’ رائے پتھورا ‘‘نے اس کا مقابلہ کیا، زندہ گرفتار ہوا اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
 حضرت خواجۂ   اجمیر  ؒکی کتابِ زیست کا ورق ورق ، علم کی برتری اور حصولِ علم کی فضیلت کا شاہد ہے باون سال تک تلاشِ علم میں قریہ قریہ اور شہر شہر کا سفر کیا اور جہاں کسی صاحبِ علم کی خبر ہوئی راستہ بدل کر اُسی جانب روانہ ہو گئے۔ قرآنی آیات اور احادیث کی عبارات تک کو نہ جاننے والے مدعیانِ تصوّف کو خواجہ ؒ کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔
 ’’خواجۂ   اجمیری ؒکی زندگی بہت سادہ مگر دل کش تھی، ہندوستان کے سب سے بڑے سماجی انقلاب کا یہ بانی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میںبیٹھا رہتا تھا۔ پانچ مثقال سے زیادہ کی روٹی کبھی افطار میں میسر نہ آئی، لیکن نظر کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جس کی طرف دیکھ لیتے معصیت کے سوت اس کی زندگی میں خشک ہو جاتے۔‘‘   صوفیاء کرام کی زندگیاں شاہد ہیں کہ اُن کا ہر رویہ اصلاحِ عوام کے لیے تھا اور اُن کے ہر عمل سے خلقِ خدا کی فلاح مطلوب تھی، حاجت مندوں کے لیے مکمل معاونت، افلاس زدہ افراد کے لیے لنگر کا انتظام، اہل ثروت کو اہل حاجت کیلئے متوجہ کرنا، یہ رویے بہرحال جاری رہتے تھے، حضرت خواجۂ   اجمیرؒ  فرمایا کرتے کہ:
’’حقیقی عبادت یہ ہے کہ عاجزوں کی فریاد کو پہنچنا، ضعیفوں اور بے چاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کا پیٹ بھرنا۔‘‘ 
 برصغیر میں ایسا انقلاب پہلے برپا نہ ہوا تھا کہ عقیدتیں ایک وجود کے گرد مجتمع ہو جائیں اور اپنے بلکہ بیگانے بھی اجمیر کے دوتہی پوش کو ’’سلطان الہندؒ  ‘‘پکارنے لگیں اور یہ صرف پکار ہی نہ ہو، عقیدت و محبت کے رواں دواں قافلے اس سالار قافلہ کی جانب پیہم رواں رہیں۔ وقت کا سلطان، دہلی کا مطلق العنان حکمران اور تاریخِ ہند پر انمٹ نقش چھوڑنے والا بادشاہ’’ التمش ‘‘جس کے استقبال کے لئے چشم براہ رہے اور جس کے خلیفہ کے لئے ننگے پائوں دوڑ پڑے اُس کی محیط سلطانیت کا کون اعتراف نہیں کرے گا۔ رشد و ہدایت کا وہ قافلہ جو مدینہ منّورہ سے سرگرم سفر ہوا تھا ’’بغداد ‘‘و’’ غزنی ‘‘کے راستے سرزمین ہند پر آیا تو تو ہمات کا اسیر ہندو جو کسی دوسرے دین کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا جوق در جوق اس قافلۂ سالار کے پیچھے صف درصف کھڑا ہو گیا۔ قافلۂ رشد وہدایت کی ایسی پذیرائی تو کم کم دیکھنے میں آئی تھی جیسی اس عظیم قائد کی راہنمائی میں ممکن ہوئی۔ حیرت ہے کہ سیاسی حالات کیسے بھی ہوئے، معاشرتی اضطراب کی کوئی صورت بھی نمودار ہوئی، انسان، انسان سے کس قدر بھی نالاں ہوا مگر ’’سلطان الہند ؒ  ‘‘کے جلال و کمال پر کوئی حرف نہ آیا ، زمانہ دور ہوتا گیا مگر عظمتوں کا یہ ہالہ روشن تر ہوتا گیا۔ ’’ثبت است برجریدہٗ عالم دوامِ ما‘‘
 حضرت خواجہؒ کی شخصیت میں عفو و درگزر کا جو ہر نمایاں تھا۔ اُن کی اس عادت نے ان کے جانی دشمنوں کو بھی اُن کا شیدا و گرویدہ بنا دیا۔ ’’سیرالاقطاب ‘‘ میں ہے کہ ایک دفعہ حضرتؒ کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا، اور عرض کیا: میں ایک عرصہ سے قدمبوسی کی آرزو رکھتا تھا، شکر ہے آج یہ سعادتِ عظمیٰ حاصل ہوئی۔ یہ سن کر حضرت  ؒ مسکرائے ، اور فرمایا : تم جس نیت سے آئے ہو، اس کام سے فارغ ہو لو، یہ سننا تھا کہ وہ شخص خوفزدہ ہو کر زمین پر گر گیا، اور بولا: فلاں شخص نے مجھے آپ کے ہلاکت پر آمادہ کیا تھا، میری نیت تو ایسی بے ہودہ حرکت کی نہ تھی۔ یہ کہہ کر اس نے بغل سے چھری نکال کر حضرتؒ کے سامنے رکھ دی اور قدموں میں سر رکھ دیا۔ حضرتؒ نے اسے معاف کر دیا اور اس کی ہدایت و سعادت کے لیے  دعا فرمائی، وہ مسلمان ہونے کے بعد حضرتؒ کے خادموں میں شامل ہو گیا۔ 
’’مناقب المحبوبین ‘‘کی روایت کے مطابق حضرت خواجہ بزرگؒ کے خلفاء تیرہ تھے جن میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ،حضرت سلطان التارکین حمیدالدین الناگوریؒ،حضرت خواجہ فخرالدین فرزند خواجہ بزرگؒ،حضرت خواجہ معین الدین ؒ،حضرت شیخ وجیہہ الدینؒ،حضرت شیخ برہان الدین عرف شیخ بدوؒ،حضرت خواجہ حسن خیاط ؒ اورحضرت ’’اجے پال جوگی ‘‘عرف عبداللہ بیابانی ؒ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
 التمش (م633ھ) کے عہد حکمرانی میں یہ آفتاب رشد وہدایت اجمیر کی سرزمین میں خلد آشیاں ہوا۔ وفات 6؍رجب 633ھ کوہوئی۔ ’’متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈکرزن نے اجمیر میں حضرت خواجۂ خواجگان معین الدین چشتی  ؒ کی بے پناہ محبت و عقیدت کے مناظر دیکھے، تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا :  ’’اجمیر میں خواجہ  ؒ کی قبر کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں پر حکومت کر رہی ہے۔‘‘ 

ای پیپر دی نیشن