بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی اس رائے کو مایوسی قرار دیتا ہوں کہ یہ قوم کبھی بھی نہیں سدھر سکتی ۔ یہ قوم نہیں ایک ہجوم ہے اس میں سوچنے سمجھنے ، غوروفکر کرنے اور علم و شعورکی صلاحیت ہی نہیں ۔میں اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ یہ قوم ایک پتھرہے جس پر وعظ اثر نہیں کرتا ۔ جس کو جتنا مرضی سمجھا لیں اس کا کوئی فائدہ نہیں تم اپنا وقت ضائع کر رہے ہو ۔ مجھے اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ یہ قوم سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔یہ خود کشی کی طرف رواں دواں ہے اور اپنی موت کا خود نظارہ کرنے جارہی ہے ۔ اس قوم نے اپنا مستقبل تباہ کیا اب اپنے بچوں کا مستقبل بھی تباہ کر کے دم لے گی ۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی قومیں ترقی یافتہ ہیں جبکہ ہم آج بھی مانگتے پھر رہے ہیں ۔ میں یہ بات سن کر بھی پریشان ہو جاتا ہوں کہ اس قوم کی اکثریت ان پڑھ افراد پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے یہ قوم شعور اور عقل سے فارغ ہے اس میں کسی چیز کو سمجھنے اور کھوجنے کے جراثیم ہی نہیں ۔ علم کیلئے عقل کی ضرورت ہے اور عقل کیلئے فکر کی جبکہ اس قوم کے پلے کچھ بھی نہیں ۔ نہ علم،نہ عقل اور نہ فکر ۔میں اس بحث پر بھی آنکھیں بند کے سر جھٹک دیتا ہوں کہ اس ملک کی اشرافیہ نظام کو سیدھا نہیں ہونے دیتی ۔ ایلیٹ کلاس کو قانون پڑھانا اور سمجھانا ناممکن ہے ۔ ان کیلئے قانون مکڑی کا جالا ہے جو ان کو نہیں روک سکتا ۔ یہ اس جالے کو پھاڑ کر گذر جاتے ہیں آج تک کوئی بھی حکومت ان کو نکیل نہیں ڈال سکی ۔ تو آج میں آپ کوقائل کر کے چھوڑوں گا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ہمارے ملک میں ان پڑھ پڑھے لکھے لوگوں کی برابری کر رہے ہیں ۔ جو کام پڑھے لکھے لوگ کافی علم اور تربیت کے بعد کر سکتے ہیںوہ ان پڑھ لوگ بھی آسانی سے کر رہے ہیں وہ بھی بغیر کسی محنت اور سالوں کے علم سے بخوبی مزے لے رہے ہیں ۔ جہاں تک ایلیٹ کلاس کی طاقت وری ، منہ زوری اور بد اخلاقی کا پراپیگنڈہ ہے یہ بھی سراسر غلط ہے۔ یہ لوگ بھی اس رسے پر سے گذر رہے ہیں جس پر سے عام آدمی کو گذرنا پڑ رہا ہے ایک جگہ ہے جہاں پر آپ ان کو نہایت مہذب اور شریف شہری دیکھتے ہیں ۔ یہ چاہیں بھی تو کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس پر آپ کیلئے تعجب کی بات یہ ہے کہ وڈیرے، ارکان اسمبلی اور وزیر مشیر بھی اچھے بچے نظر آتے ہیں ۔ میں اپنی بات دلیل کے ساتھ کروں گا اور آپ کو دو مناظر دکھائوں گا جس سے آپ حیران رہ جائیں گے اور میری بات پر متفق نظر آئیں گے ۔ آیئے دونوں مناظر ملاحظہ فرمائیں ۔آپکے دائیں بائیں ان گنت افراد موبائل استعمال کر رہے ہیں ان میں زیادہ تعداد ان پڑھ افراد کی ہے بلکہ چٹے ان پڑھ افراد کی ہے جو ایک حرف کی بھی پہچان نہیں رکھتے ۔ بعض کے پاس بٹنوں والے جبکہ بعض کے پاس ٹچ موبائل ہوتے ہیں ۔ یہ ان پڑھ ہونے کے باوجود ٹچ موبائل کو چلاتے ہیں اور پڑھے لکھے افراد کی طرح دنیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ ٹچ موبائل سے کال کرنا ،کال سننا،فوٹوبنانا اور بھیجنا،مووی بنانااور فیس بک پر اپ لوڈ کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اب اپنے دوسرے اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری ایلیٹ کلاس بڑی خود سر ہے جو قانون کو نہیں مانتی ۔ یہ بھی غلط ہے آپ موٹر وے پر سفر کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی امیر کبیر موٹر وے کے قریب آتا ہے تو موٹر پر چڑھنے سے پہلے اپنا سیٹ بیلٹ باندھ لیتا ہے اسے فکر لگ جاتی ہے کہ اب موٹر پر چلنا ہے ۔ جب موٹر پر چلتا ہے تو اشاروں کا خیال رکھتا ہے کسی گاڑی کو بغیر اشارہ لگائے کراس نہیں کرتا ۔ جب کسی گاڑی کو کراس کرتا ہے تو کراسنگ کے بعد فوراً اپنی لین میں آ جاتا ہے اور لین کی تبدیلی اشاروں کے بغیر نہیں کرتا حد رفتار سے تجاوز نہیں کرتا دوران ڈرائیونگ موبائل فون استعمال نہیں کرتا اگر کرتا ہے تو بہت کم بلکہ انتہائی ضروری کال کو اٹینڈ کرتا ہے ۔ امیروں کبیروں کے علاوہ ڈرائیور طبقہ جو نہایت بد تمیز اور بد اخلاق سمجھا جاتا ہے جب موٹر وے پر آتا ہے تو پہلے اپنے لوڈ کا وزن کراتا ہے موٹر وے پر اجازت کیمطابق لوڈ کرکے موٹر وے پر چڑھتا ہے ۔ موٹروے پر پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی آپ اور لوڈنگ میں نہیں دیکھیں گے ہر بس ، کوسٹر یا ٹیوٹا سیٹ بائی سیٹ ہوگا اب میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں ۔ آپ نے دونوں مناظر ملاحظہ فرمائے آپ نے ان پڑھ لوگوں میں انتہا کا ٹیلنٹ دیکھا اور امیروں کبیروں میں حد درجے کی تمیز اور قانون کی پاسداری دیکھی اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جو ان پڑھ افراد اس قدر ذہین ہیں تو ان کو دیگر ذرائع اور طریقوں سے تعلیم کیوں نہیں دی جا سکتی اور امیر کبیر موٹر وے پر اس قدر تہذیب یافتہ ہیں تو یہ لوگ موٹر وے سے اتر کر بد تہذیب اور بد اخلاق کیوں ہو جاتے ہیں آپ یقینا میری بات سے اتفاق کریں گے کہ اس قوم کو عقلمند بنایا جا سکتا ہے کسی طریقہ سے یا ڈنڈا سے ۔ آپ خود تعین کریں اس قوم کی بھلائی کیلئے جس کو یہ قوم مانتی ہو۔ مگر یہ نہ کہیں کہ یہ قوم سدھر نہیں سکتی ۔