وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کرنے والوں سے پوچھا ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل 60 ڈالر سے 95 ڈالر پر پہنچ جائے تو حکومت قیمت کیسے نہ بڑھائے؟ اپوزیشن کے پاس قیمتیں کم کرنے کا کوئی جادو ہے تو بتا دے۔
جادو کا چراغ تو محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے‘ اصل میں تو کامیابی کیلئے نیت اور ارادہ ضروری ہوتا ہے جبکہ عوام کی حالت دیکھ کر تو حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس سے عاری نظر آتی ہیں۔ چلیں اپوزیشن کے پاس چراغ نہیں‘ آپ کے پاس تو عقل و خرد کا چراغ موجود ہے جس کے آپ اپنی انتخابی مہم میں پبلک جلسوں میں تسلسل سے دعوے کرتے رہے ہیں کہ اقتدار میں آتے ہی پلک جھپکتے میںعوام کے مسائل حل کر دینگے۔اس پر عوام خوشی سے نہال تھے‘ اقتدار میں آئے تو کام کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت مانگ لیا‘ لیکن عوام نے پھر بھی توقعات باندھے رکھیں۔ تین سے چھ‘ چھ سے سال اور سال سے اب خیر سے چار سال گزر چکے ہیں‘ حل تو کجا‘ عوام کے مسائل میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہو گیا ہے اور آج عوام جس نئے پاکستان میں جینے پر مجبور ہیں وہاں اب ان کیلئے سانس لینا بھی محال ہو گیا ہے۔ حکومت نے تو اس وقت بھی تیل کی قیمتیں برقرار رکھیں جب عالمی سطح پر تیل کے نرخ ایک ڈالر سے بھی کم ہو کر انتہائی نچلی سطح پر آگئے تھے تو عوام انکے دعوئوں پر کیسے یقین کرلیں۔ اب تو پٹرولیم نرخ بڑھنے پر اپوزیشن ہی نہیں‘ عوام بھی کوسنے دینے لگے ہیں۔ رہی بات کہ ’’اپوزیشن کے پاس کوئی چراغ ہے تو بتادے‘‘ تو جناب جب حکومت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا ہی گوارا نہیں کریگی تواسے کیسے پتہ چلے گا کہ اپوزیشن کے پاس عوامی مسائل اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کا ’’سنہری‘‘ فارمولا موجود ہے۔ جب یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرینگے تو عوامی مسائل پر بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔ اور اگر خوش قسمتی سے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے بیٹھ بھی جائیں تو سارا اجلاس ہلڑبازی کی نذر ہو جاتا ہے۔ نہ جانے کب قوم کو حقیقی لیڈر نصیب ہونگے اور کب یہ ملک قائد اور اقبال کا حقیقی پاکستان بنے گا؟
٭…٭…٭
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شہرت میں ایک اور اضافہ‘ مندر کے دورے کے دوران مہمانوں کی کتاب میں لکھا کچھ نہیں‘ بس ہوا میں قلم چلاتے رہے۔ ٹی وی کیمروں نے پول کھول دیا۔
لیڈر یا سربراہ کسی دورے پر جاتا ہے تو کمنٹس بک میں اپنے خیالات کا اچھے الفاظ میں اظہار کرتا ہے جبکہ مودی جی کے پاس تو نہ اچھے الفاظ ہیں نہ اچھی سوچ‘ اسی لئے انہوں نے ہوا میں قلم چلا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کیمرے ان کا یہ پول نہ بھی کھولتے تو انتظامیہ انکے لکھے ہوائی ریماکس ضرور پڑھتی ‘ جسے دیکھ کر اسے بھی مایوسی ہوتی۔ اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ اس وقت بھارت پر ایک انگوٹھا چھاپ حکومت چل رہی ہے ۔ اگر مودی پڑھے لکھے ہوتے تو وہ چائے کا ڈھابہ کیوں لگاتے۔ چائے بیچنا عیب یا گناہ نہیں‘ فرق صرف کردار کا ہوتا ہے۔ ایک چائے فروش ہمارے ہاں بھی ہے جو آج ماڈلنگ کی دنیا میں نام کما رہا ہے جبکہ ایک مودی جی ہیں نام کمانے کی بجائے بھارت کا بھی نام ڈبو رہے ہیں۔ اس وقت وہ پوری دنیا کیلئے موذی شخصیت بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص کشمیری اور بھارتی مسلمان تو انکے مضر اثرات سے بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ جس طرح انہوں نے مہمان کتاب میں لکھنے کے بجائے ہوا میں قلم چلایا ہے‘ اسی طرح کے تیر وہ حکومت میں بھی چلا رہے ہیں۔
٭…٭…٭
ایک سروے کے مطابق دو تہائی امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ امریکہ غلط راستے پر گامزن ہے۔
ایک جاری کردہ پولیٹیکو مارننگ کنسلٹ پول سے معلوم ہوا ہے کہ صرف 34 فیصد رائے دہندگان امریکہ کو درست سمت پر جاتا دیکھ رہے ہیں جبکہ 66 فیصد اسکی پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا داعی ہے اس تناظر میں وہاں عوامی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ اس وقت 66 فیصد عوام کی معتبر رائے پر 34 فیصد اقلیتی رائے بھاری نظر آرہی ہے۔پاکستان بھی تو یہی باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ امریکہ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنی سمت درست کرنی چاہیے۔ امریکی حکام سے بہتر تو افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ ہیں جنہوں نے گزشتہ روز یہ کہتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ اچھا‘ ایماندارانہ اور نتیجہ خیز تعلق رہا ہے‘ وہ افغانستان کے معاملے میں اپنے سسٹم کے ماہر ہیں اس لئے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس اعتراف کے بعد تو امریکی حکام کو پاکستان کے ساتھ ڈومور کے تقاضے بند کرکے اور اسکی نیت پر شک کرنے کے بجائے اس سے رہنمائی لے لینی چاہیے۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کریگا‘ کیونکہ اس خطہ میں وہ اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا ہے‘ وہ اپنے 66 فیصد عوام کی نہیں سن رہا تو ہماری کیا سنے گا۔
٭…٭…٭
خبر ہے کہ بھارت میں ایک شخص نے جہیز میں ملنے والی ٹرین لینے سے انکار کر دیا۔
جہیز میں سامان ‘ گاڑی ‘ موٹرسائیکل یا نقدی دینا عام بات ہے لیکن ریل گاڑی جہیز میں دینا بھارت میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ آجکل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک شخص دعویٰ کررہا ہے کہ اسے جہیز میں ٹرین مل رہی تھی ‘ لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا کہ اسکے پاس ٹرین کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ موٹر گاڑی ملتی تو لے لیتا کیونکہ گاڑی اور ٹرک چلانا جانتا ہوں‘ سسرال والے ٹرین دے رہے تھے‘ اب ٹرین چلانا کون سیکھے۔ اس لڑکے کے سسرالی یقینا امیر کبیر ہیں جنہوں نے اپنے داماد کو جہیز میں ٹرین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر وہ جہاز بھی دے دیتے تو کوئی تعجب کی بات نہیں تھی ، لیکن لگتا ایسا ہی ہے کہ لڑکے کی شوخیاں دیکھتے ہوئے انہوں نے بھی ایسے کو تیسا کے تحت جہیز میں ٹرین دینے کا شوشہ چھوڑا ہوگا جس پر اس نے انکار کرکے سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرلی۔ اس نوجوان کو ٹرین لینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ اپنے سسرالیوں سے یہ کہہ کر ٹرین لے لیتا کہ میں سسرال آکر ٹرین استعمال کرلیا کروں گا کیونکہ میرے گھر اسے کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے‘ شہرت پانے کے شوقین اس طرح کی اونگیاں بونگیاں مار کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اس نوجوانوں کو ٹرین نہ سہی‘ اس مالیت کی کوئی ایسی چیز سسرالیوں سے مانگ لینی چاہیے جو اسکے گھر میں آسانی سے سما سکے۔