میں ایک وکیل ہوں۔1970ء کی دھائی کے وسط میں جب میں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں داخلہ لیا تو داخلہ فیس تین سو کے لگ بھگ ہوگی۔ اس میں سے بھی ایک سوروپیہ کالج چھوڑنے کے بعد واپس مل جاتا تھا۔ہماری فیس بیس روپے ماہوار ہواکرتی تھی ۔ رہا لاء کالج کا وہ ہاسٹل جو خدا کی اس زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا تھا اس کا ماہوار کرایہ بائیس روپے تھا ۔کیسے کیسے لاجواب لوگ تھے جوکلاس فیلورہے ۔ایک ایک کانام لکھوں تو مجھ ایسے ایک حلقۂ احباب رکھنے والے شخص کو بھی شائد کوئی چھوٹی موٹی کتاب ترتیب دینا پڑے۔رہے ہمارے اساتذہ تو ملک بھر میں ایک بھی ان کا ہمسر نہیں ہوگا۔پرنسپل شیخ امتیاز ،اعجاز بٹالوی ، عابدمنٹو،آفتاب فرخ،ملک سعید حسن ،سردار اقبال موکل جیسے قانون کے ولی ہمیں پڑھانے کیلئے صبح سات بجے کالج پہنچ جاتے ۔اعتراز احسن ،خلیل الرحمان رمدے،حامد خاں ،جسٹس راشد عزیز بھی اچھا پڑھاتے تھے مگر کالج میں جونیئر لیکچرار جانے جاتے تھے۔جب قانون کا امتحان مکمل کرنے کے بعد حساب کیا تو معلوم ہواکہ ہمارا خرچہ تین سو روپے ماہوار کے قریب ہوتا تھا گویا ایک سال میں چھتیس سو روپے یف ای ایل اور ایل ایل بی کے دونوں سالوں کا خرچہ بہتر سو روپے ۔ چلیں آپ اس میں دس ہزار روپے اور شامل کرلیں۔یہ ساراخرچہ لاہور شہر کی تفریحات اور فلم بینی کو ملاکر ہوتا۔ایک روز سوچا تومعلوم ہواکہ ہم نے اتنے بڑے کالج اور اتنے عظیم اساتذہ سے پڑھ کر ایل ایل بی تو مفت میں ہی کرلیا۔مگر نہیں ہم لوگ مفت میں وکیل نہیں بنے۔کالج کے سٹاف اور پروفیسرز کی تنخواہوں کابہت خرچہ آتاتھا۔اتنا بڑا ادارہ ہماری فیسوں سے تھوڑی چلتا ہوگا۔ دراصل ایسے ادارے ،کالج اور یونیورسٹیاں چلانے والے پاکستان کے وہ لوگ ہوتے ہیں جوخود مفلس رہ کر ہمارے لئے اعلی تعلیم وتربیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔آج کون سابڑا وکیل یاجج ہے جس کی تعلیم کا خرچہ انہی مفلس اور غریب لوگوں نے برداشت نہیں کیا۔یہی طلباء جب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو وہاں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کیلئے کسی ہوٹل میں پلیٹیں تک صاف کرنی پڑتی ہیں ۔چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنی تعلیم کاخرچہ پوراکرتے ہیں توانہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملک تووہ پیچھے چھوڑ آئے جہاں کے لوگوں نے خود مفلس وقلاش رہ کراور اپنے بچوں کاپیٹ کاٹ کر انہیں تعلیم دلوائی تھی۔لاء کے علاوہ ملک بھر کے اعلی سے اعلی میڈیکل کالجوں میں بھی طلباء کوجو تعلیم دی جاتی وہ بھی تقریباایسے ہی اخراجات پر مشتمل ہوتی مگر دیگر شعبہ جات کی تعلیم کے برعکس میڈیکل کی تعلیم دینے پر بہت اخراجات اٹھتے ہیں۔ ایک وکیل یا کسی مضمون کا لیکچرار بننے پر ماسوائے تعلیمی فیس اور کتابوں کے کوئی خرچ نہیں آتامگر میڈیکل کے طلباء کی تعلیم پر بہت اخراجات اٹھتے ہیں اور یہ اخراجات بھی ہمارے ملک کے مفلس اور سفید پوش لوگ اپنا پیٹ کاٹ کراور بچوں کی کئی جائز ضروریات ترک کرکے ان کی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں ۔یہی ہمارے معاشرے کا ایک پہلو ہے مفلس وغریب لوگ بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے دیگر ڈگریاں حاصل کرنے والوں کی نسبت ڈاکٹر صاحبان پر زیادہ خرچہ کرتے ہیں۔پھر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں کے ٹیکسوں اور حکومتی اخراجات پر پڑھنے والے یہ ڈاکٹر دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے امریکہ ،یورپ اور دیگر ملکوں میں اعلی تعلیم کے نام پر ایسے روانہ ہوتے ہیں کہ واپسی ان کیلئے ایک عذاب یا ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے ۔دیارغیر میں ہی شادی کرلیتے ہیں یا پاکستان سے کسی خاتون کو بیاہ کرساتھ لے جاتے ہیں اور زندگی بھر اپنے اہل وعیال کے ساتھ اسی ملک کے ہورہے۔جن پاکستانیوں نے اور پاکستان کی ریاست نے انہیں تعلیم کازیور پہنایا ہوتا ہے اور انکے تعلیمی تجربات پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا ہوتا ہے وہ ان کی خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔اس سے بھی تلخ یہ امر ہے کہ کروڑوں روپے کے اخراجات پر پڑھنے والے ڈاکٹر صاحبان کا ایک حصہ ڈاکٹر بن کرمریضوں کی خدمت کرنے کی بجائے مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ادھر ایم بی بی ایس کیا ادھر سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ گئے اور افسر بن کرایک نئی شکل اور نئے نمونے کی حیثیت سے سامنے آئے ۔میں نے ایک افسرسے پوچھا کہ بھاء جی آپ نے ڈاکٹری کا انسان دوست پیشہ اور مسیحائی کا اعجاز چھوڑکرـ"پلسیا" بنناکیوں پسند کیا۔ کہنے لگے ڈاکٹری میں "ٹور"نہیں ہوتا بندہ ساری عمر مسکین ہی رہتا ہے نہ کوئی محلے میں جانتا ہے اور نہ کوئی شہر میں دبدبہ ہوتا ہے ۔میں نے کہا کہ اگریہی کچھ حاصل کرنا تھا تو آپ ایم ۔اے یا ایل ایل بی وغیرہ کرکے بھی سی ایس پی آفیسر بن سکتے تھے ان ڈگریوں پر تو سرکاری خرچہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر آپ نے ریاست کے کروڑوں روپے خود پر خرچ کرواکر لوگوں کو اپنے مسیحائی کے ہنر سے محروم رکھا۔مگر اب چونکہ وہ ایک "ٹور"(رعب) والا انسان بن چکا تھا۔ہزاروں کانسٹیبل اور انسپکٹرز وغیرہ اس کی فوج تھے۔پروٹوکول تھا۔کلف لگی وردی،کاندھوں پر چمکتے ستارے ،سرجھکا کر اور ہاتھوں میں درخواست لئے لوگ دفتر میں آتے۔وہ طالب علم جس کیلئے ملک کے لوگوں نے خود مفلس رہ کر کروڑوں روپیہ صرف کرکے اسے ڈاکٹر بنایا اب وہ "دکھی انسانیت " کوعلاج کا نسخہ تجویز کرنے کی بجائے ان کی تفتیش تبدیل کرنے پر دستخط کرتا ہے۔یہ تو ایک "پلسیئے" کاذکر ہے بہت سے اسسٹنٹ کمشنر ،ڈپٹی کمشنر اور اب کمشنر بن چکے ہوں گے ۔ بہت سے کسٹمز اور فارن سروس میں موجود ہیں ۔ جب کسی ڈاکٹر کو مسیحائی کے ہنر کی بجائے افسرشاہی کے روپ میں دیکھتا ہوں توگھن آتی ہے۔کیااب ریاست کے سوچنے کا وقت نہیں آن پہنچا کہ جس طالب علم پر کروڑوں روپیہ خر چ کرکے اسے ڈاکٹر بنایا اس پر افسر شاہی کا پھاٹک بند کردیا جائے ۔ پس تحریر:۔کالم میں کالجوں کے باب میں سرکاری میڈیکل کالج شمارکئے جائیں۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر صاحبان کا دوسرا چہرہ
Feb 19, 2022