کراچی (نیوز رپورٹر ) وفاقی حکومت نے آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ حکومت کے 15 دن کے شیئر 35 ارب روپے میں سے 31.9 ارب روپے کاٹ کر صرف 3 ارب روپے جاری کیے جو کہ صوبائی حکومت کو مالی طورپر غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ اس بات کا اظہار وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں اخبارات کے ایڈیٹرز اور نیوز چینلز کے ڈائریکٹرز سے ملاقات میں کیا۔وزیراعلیٰ سندھ نے سینئر میڈیا کے نمائندوں کو وفاقی حکومت کے سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے رویے سے آگاہ کیا اور انہیں صوبے کے اہم مسائل جیسے کہ سندھ حکومت کے شیئر کی کٹوتی، پانی اور گیس کی قلت، یکطرفہ روٹیشن پالیسی ( تقرریاں /تبادلے) کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بحران، میڈیا پر پابندیاں، میڈیا والوں کو گرفتار کرکے ان کی آواز کا گلا گھونٹنا اور دیگر سماجی مسائل پر بھی بات چیت کی۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ان ناانصافیوں کے خلاف با آواز بلند لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد جائیں گے۔ایٹ سورس ڈیڈیکشن: سندھ حکومت کے شیئر سے ایٹ سورس کٹوتی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو 35 ارب روپے 15 دنوں کا شیئر یکم سے 15 فروری تک منتقل کرنے تھے لیکن انہوں نے 32 ارب روپے کی کٹوتی کی اور صرف 3 ارب روپے منتقل کئے۔ جس کا مقصد صوبائی حکومت کو مالی طور پر کمزور کرنا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ SRB اور FBR کے درمیان کراس ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے 13 مارچ 2014 کو ایک دو طرفہ ایم او یو پر دستخط ہوئے تھے – جس کا مطلب ہے کہ ٹیکس دہندگان کو اپنے سیلز ٹیکس ریٹرن میں ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ہوگی، ان پٹ ٹیکس کو دیگر دائرہ کار میں ادا کیا جاسکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی کراس ایڈجسٹمنٹ کی جانچ پڑتال اور مصالحت کی جانی چاہئے اور انتظامیہ کو ادائیگی کی جانے والی نیٹ رقم جس کے بدلے میں کراس ایڈجسٹمنٹ کی مقدار کو بڑھاگیا تھا۔ ان اقدامات نے کچھ سنگین اختلافات کو جنم دیا۔ جس کی وجہ اگست 2016 میں MOU کو لاگو کرنے کے لیے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے گئے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ایم او یو میں طے شدہ مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اوراجلاسوں کا سلسلہ بھی منعقد ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم او یو میں اس صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں کچھ رقم متنازعہ ہوئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ایسی صورت میں متنازعہ/غیر مصالحت شدہ رقم کو اکاؤنٹنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے گا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ طے شدہ طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے ایف بی آر نے ایس آر بی کے مختلف ہیڈز کے حوالے سے 42.5بلین روپے کے جائز دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے طور پر 31.978 بلین روپے کی نیٹ رقم کی کٹوتی کرلی۔ انہوں نے کہا کہ یہی نہیں اس طرح کے یکطرفہ کام کی بنیاد پر اور ایم او یو کے آرٹیکلز اور متفقہ پیرامیٹرز کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے ایف بی آر نے وفاقی وزیر خزانہ کی منظوری سے این ایف سی میں صوبہ سندھ کا حصہ یکطرفہ طور پر کم کر دیا ہے۔ایف بی آر کے اس طرح کے متعصبانہ اور من مانے اقدامات نے مرکز اور سندھ کے درمیان عدم اعتماد کو جنم دیا ہے جو ٹیکس عائد کرنے کے ہم آہنگی کے عمل کو متاثر کرے گا اور نیشنل ٹیکس کونسل / این ایف سی کے متعلقہ اقدامات کے اعداد و شمار کو متاثر کرے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی طرح کے اکاؤنٹ پر وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کے زیر اقتدار دو صوبوں کو بغیر کسی کٹوتی کے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم تقسیم کی ہے جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے افسوس کا اظہار کیا۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت صوبوں کو پانی کے اضافی حصے کے ساتھ ساتھ قلت کو بھی طے شدہ فارمولے کے مطابق بانٹنا گیا تھا تاہم جاری قلت ربیع/خریف سیزن کے دوران سندھ کو اس کے جائز حصے سے محروم رکھا گیا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ 1991 کے معاہدے میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک فارمولے پر اتفاق ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر 10 دن کے لیے ہر صوبے کے لیے پانی کی تقسیم ہوتی ہے اور پانی کی قلت یا اضافی ہونے کی صورت میں متفقہ فارمولے کے مطابق پانی تقسیم کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کو اس معاہدے پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کے لیے بنایا گیا تھا لیکن وہ اپنا کام درست طریقے سے کرنے میں ناکام رہی
مراد علی شاہ
میں سے صرف 3ارب کا اجراء وفاق کی سندھ کو مالی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش وزیراعلیٰ سندھ
Feb 19, 2022