آخر کار وہ کام حکومت وقت نے کر دکھایا جس کے لئے انہی لایا گیا تھا پاکستانی عوام کو روٹی کے نوالے سے محروم کرنے کا ایجنڈا اب باقاعدہ اپلاء کیا جا رہا ہے 200 ارب کا منی بجٹ مہنگائی کا ایک طوفان اور آئی ایم ایف کی شرائط.. اورحکومت وقت کا یہ کہنا کہ یہ سب دل پہ ہاتھ رکھ کے کر رہے ہیں ہمیں مہنگائی کا پورا احساس ہے. یہ بیانیہ ہی آسرے کے لئے کافی ہے کہ جس عذاب سے اس کلمہ حق کے نام پہ لیے جانے والے ملک کی بے بس عوام گزر رہی ہے اس کا احساس ملک کے ان حکمرانوں کو بھی ہے جن کے وسائل کی بدولت ان کے بچے دوسرے ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کے بیمار لندن میں علاج کراتے ہیں. ان بیماروں نے اس غریب ملک میں رہنے والوں کے لئے بخار کی گولی مہنگی کر دی ہے پٹرول مہنگا، بجلی مہنگی، سونا مہنگا، ڈالر مہنگا، سگریٹ مہنگی، فضائی سفر مہنگا(یہ سفر وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو قرض لے گے اللہ نبی کے گھر کی زیارت کرنے جاتے ہیں) غرض کیا ہے ایسا جسے سستا رہنے دیا گیا ہو؟؟ پھر بھی سربراہ یہ کہتے ہیں کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور ہمیں عوام کے مسائل کا ادراک ہے. کیا یہ ہے عوامی مسائل کا ادراک؟ کہ گزشتہ سال غربت کے مارے لوگوں نے اپنے زیور بیچ کے بل ادا کئیے ہیں اب دیکھیں 7 روپے فی یونٹ کے اضافے اور سبسڈی کے خاتمے کے بعد کیا چن چڑہتا ہے اور عوام اپنا کیا کچھ بیچ کے بل بھرتے ہیں. جن غریبوں کی غربت کا تھوڑا بہت مداوا یوٹیلیٹی سٹورز کر رہا تھا وہ سہولیات بھی آہستہ آہستہ ختم کی جا رہی ہیں گھی کی قیمت بڑھا دی گئی اور فی شناختی کارڈ پہ ملنے والا کوٹہ ختم کر دیا گیا کیا یہ ہیں فلاحی منصوبے جو عوام کی تقدیر بدل دیں گے؟ گزشتہ حکومت کی مہنگائی کے خلاف کراچی سے بلاول اور لاہور سے حمزہ شہباز، مریم بی بی ٹرکو?ں پہ سوار نکلے تھے اب حکومت بھی انہی کی ہے اور انہی ٹرکوں سے عوام کو روند رہے ہیں 1000 کا تین لٹر پٹرول اور 100 کی چار روٹیاں.. اس ملک کا کتنا فیصد طبقہ خرید سکتا ہے مڈل کلاس اس وقت کرب اور ذہنی عذاب میں مبتلا ہے. جو حالات بنائے جا رہے ہیں اگر کوئی انتہائی مخلص اور دیانت دار قیادت آ بھی جائے تو 10 سالوں میں یہ حالات درست نہی ہونے والے.قومی اسمبلی کے رکن نور عالم خان نے منی بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ظلم. قرار دیا اور کہا کہ 25 روپے کی چینی 120 روپے کی مل رہی ہے. آٹا 3600 کا 20 کلو، چاول گزشتہ سال 8000 کے 50 کلو تھے اب 15000 کے ہیں یہ غریب کی غربت کے ساتھ مذاق نہی تو اور کیا ہے پیاز 240 روپے کلو آگے خیر کا رمضان شریف آ رہا ہے حکومتی ٹیکس کے ساتھ مسلمانوں کا ٹیکس بھی لگے گا تو اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھوئیں گی. مریم اورنگ زیب کی عوام سے ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. انہوں نے عمران خان کے دور میں پٹرول کی قیمتوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ خان شرم کرو .. اور آج وہ شرم سے کچھ نہی کہتی ہیں. پی ایم شہباز شریف کے بقول ہم سابقہ حکومتی نا اہلی بھگت رہے ہیں بس یہ یاد رہے کہ کبھی آپ بھی کسی حکومت کے سابقہ تھے. سیکورٹی فورسز پر حملے پشاور میں مسجد پہ حملہ اور کراچی میں حالیہ واردات نے سیکورٹی پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے. ن لیگ یا پی پی کی کسی بھی گروپ سے کوئی نا چاقی نہیںہے اور مولانا فضل الرحمن تو ہیں ہی معصوم تو پھر ملکی امن کے پیچھے کون سی طاقتیں پڑی ہوئی ہیں ملتان میچ کی سیکورٹی کی زد میں ہے تنگدستی بھوک افلاس غربت کی چکی میں پسی عوام کو میچ کی سکیورٹی کی وجہ سے بہت پریشانی کا سامنا ہے مگر صاحب اقتدار کو فرق نہی پڑتا. 80 کروڑ کی لائٹنگ کرانے والے حکمران کس کس گھر جائیں اور غربت کا معائنہ کریں اس لئے وہ ایک ہی بات کرتے ہی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا بقولِ شاعر
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب وصل کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
محبوب کی گلی میں بھی جانا سنبھل کے
سنتے ہیں کہ دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ٹیکس اداؤں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا اب قومی خزانہ یہ ھے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح و شام سخن ور
اسی زلف کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
دل بھر کے دیکھ لو جتنا بھی اب چاھو
ہر تل پہ ہر رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
میاں دیوان کو اب اپنے سمیٹو
کہتے ہیں کہ اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا
گروپ میں کبھی آؤ تو یہ سوچ کے آنا
ہر پوسٹ پہ ہر سوچ پہ ٹیکس لگے گا
عامر شہزاد صدیقی