قبرستان بدھو ’’آوے کا آوا بگڑا جائے"

 گلزار ملک

انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے بالمقابل جی ٹی روڈ پر صدیوں پرانا قبرستان بدھو دا آوا کے نام سے معروف ہے یہ قبرستان شالامارباغ کے قریب ہے اس قدیم قبرستان میں بہت ساری اہم سیاسی و سماجی شخصیات دفن ہیں اس قبرستان کی داستان کچھ اس طرح سے بیان کی جاتی ہے کہ جہانگیر کے زمانے میں لاہور کا ایک کمہار سدھو نام اس مقام پر جہاں بدھو کا آوا مشہور ہے اور جو سڑک شالیمار باغ کے کنارے واقع ہے چھوٹا سا بھٹہ بنا کر اینٹیں پکانے کا کام کیا کرتا تھا۔ جب بادشاہ شاہجہاں کے زمانے میں شالامار باغ کی تعمیر شروع ہوئی تو سدھو کے بیٹے بدھو کو اینٹیں بہم پہنچانے کا حکم ملا۔ شالامار باغ کی چار دیواری اور اس کی عمارات کے لیے لاکھوں کروڑوں اینٹوں کی کھپت تھی اس لیے بھٹے یعنی آوے کی حدود بہت دور تک پھیل گئیں اور بدھو اب بدھو کمہار نہ رہا بلکہ شاہی خشت ساز کہلانے لگا اور امراء اور حاکم صوبہ تک اس کی رسائی ہو گئی۔ اور اب اس قبرستان پر منشیات فروشوں اور بااثر قبضہ مافیا نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اس قبضہ مافیا نے قبرستان کے اندر اور چاردیواری سے ملحقہ گھر بنا کر فروخت کرنے کا بھی دھندہ اختیار کر رکھا ہے اور ساتھ ہی قبرستان میں نشئیوں اور جانوروں کے بھی ڈیرے لگے ہوئے ہیں جو کھلے عام بلا خوف و خطر منشیات فروشی کا دھندہ کرتے ہیں اور اس دوران ایک دوسرے کو یہ شیطان گالی گلوچ بھی کرتے ہیں جس سے نہ صرف قبروں کی بے حرمتی ہو رہی ہے بلکہ یہاں پر فاتحہ خوانی کی غرض سے آنے والی خواتین کو بھی انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لیکن یہاں پر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت ایک طرف تو ملک کے ہر شہر میں ماڈل قبرستان قائم کرنے کی خواہش مند ہے جبکہ پرانے قبرستانوں کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں آپ یقین کریں کہ مذکورہ قبرستان انتہائی بدحالی کا شکار ہے یاد رہے کہ چار سو سال قدیمی قبرستان میں کوئی بڑی جنازگاہ نہیں ہے اور صفائی کا بھی کوئی انتظام نہ ہے راقم الحروف نے دیکھا کہ اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والے لوگ قبروں کی بے حرمتی پر نہایت افسردہ دکھائی دے رہے ہیں علاقہ مکینوں کے مطابق قبرستان کی اراضی پر قبضے کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے قبرستان کی انتظامیہ یہاں پر قبروں کے اوپر قبرے بنا کر لوگوں کو بھاری قیمت میں فروخت کر رہے ہیں قبرستان کے اندر بہت ساری جگہ ایسی پڑی ہے جو کہ لوگوں نے پہلے ہی اس انتظامیہ سے خرید رکھی ہے اور وہاں پر انتظامیہ کی ملی بھگت سے قبر بنانے والے گورکن حضرات خالی جگہ پر مصنوعی قبرے بنا کر اپنی مرضی کے لوگوں کو بعد میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں لوگ چونکہ مجبور ہوتے ہیں اور یہ انتظامیہ لوگوں کی اس مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے یہ سب کچھ مقامی پولیس کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے اس اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے یہ قبرستان کی انتظامیہ لوگوں کو بیوقوف بناتے ہوئے مقامی پولیس کی مٹھی کو گرم کر دیتے ہیں اور اس سے ان لوگوں کا یہ دھندہ بھی چل رہا ہے اور اس کے ساتھ منشیات فروشی کا دھندہ بھی اس قبرستان کے اندر اپنے عروج پر ہے یہ بھی سب کچھ پولیس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قبرستان تھانہ مصری شاہ اور شالیمار تھانہ کے ایریا سے ملحقہ ہے جبکہ قبرستان کو تھانہ مغلپورہ لگتا ہے یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قبروں کے اوپر نام کی لگی ہوئی پلیٹ یعنی تختی کو بھی اتار لیا جاتا ہے اور ساتھ ہی مختلف قبروں کے اوپر لگے ہوئے لوہے کے جنگلے جنہیں وہاں پر منشیات استعمال کرنے والے نشیں حضرات اتار کر لے جاتے ہیں اور جاکر ساتھ ہی گڑھی شاہو اوور ہیڈ برج کے نیچے بیٹھے ہوئے کباڑیے کو اونے پونے داموں فروخت کردیتے ہیں اس طرح یہاں کی انتظامیہ اور گورکن حضرات کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ پر نئی قبر بنا دیتے ہیں اس کے علاوہ مذکورہ قبرستان میں دن دیہاڑے ڈکیتی کی وارداتیں گن پوائنٹ پر ہورہی ہیں تو پھر اس دوران لٹے پٹے ہوئے شہری جب اس واردات کا مقدمہ درج کروانے کے لئے متعلقہ تھانہ جات میں جاتے ہیں تو ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی یہاں پر قبرستان کے اندر قبرستان کی حفاظت کے لئے اور اس کی درستگی کے لیے انتظامیہ کے اہلکار چندہ اکٹھا کرتے ہیں اپنے پیاروں کی قبروں پر آئے ہوئے لوگ ہزار روپے کا نذرانہ بطور چندہ دیتے ہیں مگر اس چندے کو قبرستان کی فلاح اور دیکھ بھال کے لئے لگانے کی بجائے انتظامیہ اور اس کے اہلکار خود ہڑپ کر جاتے ہیں اس طرح قبرستان بدھو کا آوا میں ایسے ماحول اور حالات کی وجہ سے تمام تر آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے لاہور کے شہریوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے مذکورہ قبرستان کا وزٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے

ای پیپر دی نیشن