کراچی (اسٹاف رپورٹر) آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ( او یو پی ) پاکستان کی طرف سے 17 سے 19 فروری تک بیچ لیگژری ہوٹل میں منعقد کئے جانے والے کراچی لٹریچر فیسٹول کے 14ویں ایڈیشن کے دوسرے دن بھی بھرپور ادبی بحث ومباحثہ اور لائیو پرفارمنسز پیش کی گئیں۔ دوسرے دن کا آغاز سال کے دوران وفات پاجانے والی ادبی شخصیات کوشاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرکے ہوا جن میں ضیا محی الدین، شہرہ آفاق شاعر امجد اسلام امجد، مصنف عماد حسینی اور ڈرامہ نویس مسعود اشعر جیسی قابل احترام ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نقصانات سے نمٹنے جیسے موضوع نے توجہ حاصل کی۔عافیہ سلمان، ذہرا یوسف، بلال ظہور اور قاضی خضر نے اس دلچسپ موضوع پر بحث کی۔’’ دی لاہوتی آف سندھ: ایک تصویری سفرنامہ‘‘ کے عنوان میتھیو پالے اور پیروسائین کا سیشن بصری لحاظ سے ایک شاندار تجربہ تھا جس نے سامعین کو محصور کردیا۔ عاصمہ شیرازی، ضرار کھوڑو اور مظہر عباس نے انویسیو میڈیا: رائیٹ ٹو پرائیویسی‘‘ کے موضوع پر نظامت کار وجاہت سعید خان کے ساتھ بحث میں شرکت کی۔ دوسرے دن کے دوران ادبی شغف رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے کے ایل ایف کا دورہ کیا۔’’ ہم سنگین مذاق کی لپٹ میں ہیں‘‘ کے عنوان سے سیشن نے لوگوں کے ہنسنے پر مجبور کردیا۔ اس سیشن میں مصطفیٰ ، مرتضیٰ اور فیصل چوہدری برادرز نمایاں تھے۔تینوں بھائی جو اپنے طنز و مزاح کیلئے مشہور ہیں، نے سماجی اور سیاسی مسائل پر تازہ ترین طنز و مزاح سے بھرپور گفتگو پیش کی۔کراچی لٹریچر فیسٹیول میں دو دلکش سیشنز پیش کیے گئے جن میں پاکستان میں مقامی حکومت، دولت کی تقسیم اور سیاست سے متعلق اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی۔ پہلے سیشن، ’’ایک غیر مساوی دنیا میں بڑا سرمایہ: پاکستان میں دولت کی مائیکرو پولیٹکس‘‘ نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر دولت کی عدم مساوات کے اثرات کا جائزہ لیا۔ دوسرے سیشن میں’’پاکستان کی جنگیں: ایک متبادل تاریخ‘‘ نے پاکستان کے تنازعات کی تاریخ اور ملکی ترقی پر ان کے اثرات کے بارے میں ایک منفرد تناظر پیش کیا۔ دونوں سیشنز میں بھرپور علمی بحث کو جنم دیا اور ان اہم مسائل کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کی۔ دوسرے روز کا اختتام مشاعرہ اور ’’ قائد اعظم زندہ باد‘‘ پاکستانی فلم کی سکرینگ سے ہوا۔