مسائل اوربحرانوں کا حل: قومی یک جہتی

امریکہ کی جانب سے پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے پر دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ دولت مشترکہ کی جانب سے پاکستان کے انتخابات کو شفاف قرار دیا گیا ہے اور ویسے بھی انتخابات ہمارا اندرونی معاملہ ہے، ہم نے غیر ملکی مبصرین اور دولت مشترکہ مبصرین کا خیر مقدم کیا ہے، ہم اپنی آئینی ذمہ داریاں بھرپور انداز میں نبھاتے ہیں۔ ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل عوام کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ہوا، یہ پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ استعمال کرسکیں، الیکشن کمیشن کا ادارہ تمام انتخابی عمل کو مانیٹر کررہا تھا-ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے جو میڈیا رپورٹس سامنے آئیں ان پر ہم بات نہیں کریں گے۔ دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آج پورا ملک انتخابی نتائج پر سوالات اٹھا رہا ہے، اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای او ایم) ہوتی تو آج یہ مسائل نہ ہوتے، میرا احتساب سے اعتماد اٹھ چکا اور امید ختم ہو چکی ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر پاکستانی کو مسائل کا حل معلوم ہے لیکن لیڈر شپ کی کمی ہے، یہ سائنس کا زمانہ ہے اور نوجوان آئیڈیا ز کے کارخانے ہے۔ پرانی باتیں چھوڑیں آگے کی طرف بڑھیں، جب قومیں بھٹکتی ہیں تو لیڈرشپ کو سامنے آ کر قوم کی رہنمائی کرنی چاہیے، ملک کو متحد کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے،صدر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ اگر اتحاد نہیں ہوگا تو بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئیگی، بہترین نظام کیلئے لیڈرشپ میں مشاورت، تجارت اور ملکی ترقی کا جذبہ ہونا چاہیے۔پاکستان میں اب تک ہونے والے تقریبا تمام انتخابات دھن دھونس دھاندلی بے بنیاد الزام تراشیوں منفی پروپیگنڈے اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خاطراختیارکئے جانے والے ہتھکنڈوں کے سبب غیر معتبر قرار پاتے رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے ملک پون صدی میں بھی پائیدار استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکا اور آج ہر شعبہ حیات انحطاط کا شکار ہے8-فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج پر تحفظات اور اعتراضات نے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرما دیا ہے اور الیکشن کے بعد ملک میں ساز گار فضا کی جو شمع روشن ہوئی تھی وہ ایک بار پھر بجھ گئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کے اندر اور باہر سے انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات آئندہ حکومت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان بنے رہیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سازی سے قبل ہی اس معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی جائے ۔ اس حوالے سے بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ ہر بار انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھنے سے سیاسی ماحول میں تلخی در آتی ہے اور ملکی معیشت بھی اتھل پتھل ہوجاتی ہے۔گزشتہ دو عام انتخابات کا تجزیہ اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ اگر انتخابات کی ساکھ متنازع ہوجائے تو حکومت سازی کے بعد بھی بر سر اقتدار جماعت کی گرفت حکومتی وانتظامی معاملات پر کمزور رہتی ہے اور معاشی وسیاسی استحکام ایک خواب بنا رہتا ہے۔ اس بات کا تعین بے حد ضروری ہے کہ کہ کیا وجہ ہے کہ تمام صوبوں میں یکساں طور پر اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل کی شفافیت پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں یہ معاملہ معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان انتظامی خامیوں کی نشان دہی ضروری ہے جن کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ متاثر ہوئی‘ الیکشن کمیشن کے نتائج ترسیلی نظام کی ناکامی کا معاملہ بھی جامع تحقیقات کا متقاضی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مایوسی اور نامیدی کی باتیں کرنے کے بجائے امید کے پیغام کو عام کرنا چاہیے ان کا یہ کہنا کہ میرے حساب سے اعتماد اور امید ختم ہوچکی انتہائی افسوس ناک ہے۔ یقینا ملک کے لئے یہ وقت انتہائی مشکل اور کٹھن ہے مگر قومیں مشکلات اور بحرانوں سے نکل کر ہی کندن بنتی ہیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمار ا سماجی وسیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچہ قائم ہے اور حوصلہ بھی پست نہیں‘ مشکلات ضرور ہیں مگر بہتر لائحہ عمل اپنا کر ان سے باہر نکلنے کا راستہ نکا لا جاسکتا ہے اگر چہ یہ راستہ کچھ دشوار اور طویل مگر بالکل واضح اور صاف ہے۔ اس وقت ہمیں سیاسی‘ معاشی اور سماجی استحکام پر د ل جمعی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے- مہنگائی‘ بے روز گاری‘ توانائی بحران اور امن وامان ودیگر مسائل ان ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ تین بڑے محاذوں میں سے بڑا محاذ معاشی استحکام کا ہے جو سیاسی استحکام سے مشروط ہے اور سیاسی استحکام سماجی استحکام کا مرہون منت ہے اگر سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے او رملک وقوم سے خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے تو یہ مسائل چاہے فوری حل نہ ہوں مگر ایک قابل عمل راہ ضرور نکل آئے گی۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...