ہمارے ملک میں جمہوریت کب آئے گی؟

پاکستان میں جمہوریت سکڑ رہی ہے اور سیاست میں اخلاقیات کی باقیات بھی نہیں رہیں۔جمہوری اقدار کی بہتری اور حالاتِ حاضرہ پرمبنی سیاسی اپ ٹو ڈیٹ پروگرام آپ بچوں کے ہمراہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اب پولیٹیکل ٹاک شوز اور ناپسندیدہ مواد دیکھنا ایک برابر ہے ، دونوں میں ریموٹ آپ کو ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے ناجانے کب کس شو میں جمہوریت کی بات کرنے والے سیاسی لیڈران کی آڈیو، ویڈیو لیک کے قصے چھڑ جائیں۔ ستم ظریفی تو دیکھیے کہ پاکستان میں تقریباً ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا راگ الاپتی ہے۔ خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی ہے۔ عوام الناس کے سامنے دی جانے والی قربانیوں کا بار بار تذکرہ کرتی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جمہوری اقدار کے دعویداران کھٹن راستوں پر قدم رکھے بغیر ڈائریکٹ جمہوریت کے چبوترے پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں پینتیس سال آمریت کا سایہ رہا بقیہ دور میں کبھی ہائبرڈ اور کبھی چیف ایگزیکٹو کا سسٹم چلا۔یوں سیاسی کلچر نکھر کر فروغ نہ پا سکا۔ مشاہدے میں ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سیجمہوریت کی ترقی مزید انحطاط و جمود کا شکار ہو گئی ہے جو کہ عصر حاضر کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔
 قارئین عجب بات ہے کہ پاکستان میں "طلسماتی جمہوریت" ہے ،جو موجود تو ہے مگر بظاہر نظر نہیں آتی۔ اسکے ثمرات سے عوام مستفید نہیں ہو رہے۔ ہماری غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 1947 سے اب تک یہی بحثیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کب آئے گی؟.
اب ذہنوں میں سوال اٹھ رہا ہوگا کہ حقیقی جمہوریت کیا ہے؟ قارئین حقیقی جمہوریت تو وہ ہوتی ہے جس میں ووٹروں کا اختیار نمائندگان کے اوپر ہو۔ کیا ہمارے ملک میں محکوم عوام اپنے حکمرانوں اور نمائندوں پر کنٹرول رکھتی ہے؟ یقیناً آپکا جواب نفی میں ہوگا۔  جمہوریت خواہ کسی پیراہن میں پنہاں ہو جب تک اس میں عوام کی بالا دستی نہ ہو اسے کسی طور بھی جمہوریت کی کیٹگری میں نہیں رکھا جا سکتا۔ 
نیز اس نقطہ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے بھی ذیادہ ذمہ داری سیاسی جماعت کے کندھوں پر آتی ہے۔ اگر وہ مکالمے کی جانب آئیں، اختلافی نوٹ کو فوقیت دیں، ووٹروں کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ و مخلصانہ رویہ اپنائیں تو وطن عزیز میں جمہوریت جڑ پکڑ سکتی ہے۔ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے استعمال سے قانون ہاتھ میں لینا ،چرب زبانی سے اپنے نقطہ نظر کو ٹھوس دلیل کے ساتھ مسلط کرنا،روز بروز سیاسی تلخی کا بڑھنا جمہوریت کے تسلسل کے لیے خطرناک ہوتا جارہا ہے۔
رونا تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں" گلابی ماڈرن سیاست" نے کوئی گالی چھوڑی ہی نہیں ہے۔ گالی کلچر سیاست کی پہچان بن چکا ہے حالانکہ سیاست بیلوث خدمت اور معتدل رویوں کو فروغ دینے کا نام ہے۔ احترامِ آدمیت کے بغیر سیاست فاشزم ہے۔ مرنے مارنے کی باتیں کرنا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی بوچھاڑ کرنا ، ایک دوسرے کو دہشت گرد کہنا پاکستانی سیاست کا اصل چہرہ نہیں ہے۔ موسمی سیاست دانوں نے سیاست کو جھوٹ اور کرپشن بنا ڈالا ہے۔اوپر سے چمچہ گیری کرنیوالوں کو پارٹی کی جانب سے دشنام طرازیوں کا محاذ الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ جاؤ جا کر زبان کی قینچی سے مخالفین کاکام تمام کر دو۔ ایسے ناتجربہ کار سیاست دان جن کی سیاسی ٹریننگ ہی ایک لیڈر کی نہیں ہوئی ہوتی، پارٹیاں تبدیل کرکے وہ اپنے" ایکس قائد" کے خلاف یوں بدخوئی کرتے نظر آتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ میں بکری کے بھیس میں کوئی بھیڑیا ہو اور مناسب وقت پر شب خون مار دیا جائے۔ ان سے کوئی سوال کرنے والا ہی نہیں کہ اگر آپ کے ایکس قائد ملک دشمن تھے یا ان میں یہ خامیاں تھیں تو آپ نے بروقت سچ عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھا۔ اپنے عہدے کی خاطر کیوں چپ سادھ لی؟۔عوام اور کارکنان تو سیاسی لیڈران سے سیکھتے ہیں جب لیڈران ہی کھوٹے ہوں تو کس سے فریاد کریں؟ قارئین یہ تو بالکل ایسے ہے کہ جیسیایک بچہ پتھر مار مار کر درخت پر لگے امرود توڑ رہا تھا، اچانک باغ کا مالک آگیا، بچے نے اسے دیکھا، تو بھاگ نکلا، مالک چِلّایا ’’کوئی بات نہیں، میں تمہارے والد کو بتاؤں گا، وہ تمہاری پٹائی کریں گے۔‘‘ یہ سن کر بچہ بولا’’ ابو تو خود درخت پر چڑھے امرود توڑ رہے ہیں۔‘‘
یعنی حالیہ سیاست میں قیادت 85فیصد نزاعات میں ملوث ہوتی ہے۔ ان کا آپس میں گتھم گتھا ہونا معمول بن چکا ہے۔ ایوانوں اور اسمبیلیوں میں بس گنڈاسا لے جانا باقی رہ گیا ہے۔ عجب بات ہے کہ وہ کارکنان سے بھی توڑ پھوڑ کی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر مخالفین سیاسی لیڈران کی تقاریر میں لائیو کومنٹس کے ذریعے غلیظ زبان کا بے دریغ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عوام انگشت بہ دندان رہ جاتے ہیں۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کم اور مجبوریت کے آثار ذیادہ ہیں۔ جمہوریت پسند ممالک میں شفافیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جہاں سیاسی نمائندگان کی معلومات درج ہوتی ہیں کہ ان کے اثاثہ جات کتنے ہیں، مراعات کتنی لے رہے ہیں وغیرہ۔ اس کے برعکس پاکستان میں ننگے پاؤں غربت سے پریشان حال اندرون سندھ کے باسی، بلوچستان میں پانی کے آدھے گلاس کو ترستے بیکس لوگ، خیبرپختونخوا میں آٹے کے ایک تھیلے کے حصول کے لیے گھنٹوں لائنوں میں لگنے والے مجبور عوام اور پنجاب میں غربت کی لکیر کو عبور کرتے خاندان۔۔۔ یہ کیا جانیں کہ الیکشن کی شفافیت کس بلا کا نام ہے۔ 
ماہرین سیاسیات کا ماننا ہے کہ جس ملک میں غربت کے سبب ووٹروں کو اپنے سیاسی قائد کی کامل معلومات ہی نہ ہوں تو ان کے ووٹ کی وقعت جمہوری نہیں رہتی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مملکت خداداد میں آج بھی ذات برادری، فرقہ و لسانی بنیادوں پر لوگ ووٹ مانگتے ہیں اور پاکستانی عوام بھی بڑے دل جگرے کے مالک ہیں ان کے کھوکھلے نعروں پر ہمیشہ یقین کرکے انہیں ووٹ دے کر باعزت پارلیمنٹ میں پہنچا دیتے ہیں جن کی کارکردگی صفر ہوتی ہے جو میرٹ کے تحت کسی صورت کامیاب قرار نہیں دئیے جا سکتے۔
 اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کسی بددیانت گورننس کو اپنی طاقت کے سرچشمے سے تختِ حکومت سے اگر آؤٹ بھی کر دیں انکے سامنے کوئی بہتر آپشن نہیں ہوتا لہذا وہ مجبوراً" باریوں"کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں گویا کہ کوئی سیاسی "جونی چکر"ہو۔ یاد رہے جب جمہوریت کا گراف کمزور پڑتا ہے تو طالع آزماء قوتوں کو اپنا رنگ جمانے کا موقع ملتا ہے۔ وہ بس اپنے فوائد تلاش کرتے ہیں۔ 
حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں اعصاب شکن سیاسی چپقلش اور چندمفاد پرست پارٹی کارکنان کی سیاست دانوں کی چاپلوسی کی خاطر دھینگا مشتی پر راحت اندوری کا شعر یاد آگیا: 
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن