قذافی سٹیڈیم میں پی ایس ایل 9 کے مقابلوں کا رنگا رنگ افتتاح
شکر ہے سیاسی خلفشار سے دور لوگوں کی ایک تعداد آج بھی تفریح کے چند لمحات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ قذافی سٹیڈیم میں گزشتہ روز شروع ہونے والی پی ایس ایل کرکٹ کے افتتاحی میچ کے موقع پر لوگوں کے جوش و خروش کو دیکھنے سے ہوا۔ سٹیڈیم میں لوگوں کی ایک تعداد افتتاحی تقریبات اور میچ دیکھنے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ شاندار تقریب اور اس میں ہونے والی خوبصورت آتشبازی کے ساتھ سٹیڈیم میں موسیقی کے پروگرام کی دل کھول کر داد دی۔ اپنے ملک میں اپنی ہی نمبر ون کرکٹ ٹیموں کے درمیان عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ یہ دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے جوش و خروش پیدا کرتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نیا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک طرف سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے لوگ دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ سڑکوں پر تماشہ لگا نظر آتا ہے۔ اس طرح کے ایونٹ کا انعقاد پریشر کم کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لاہور ویسے بھی شہر لاجواب ہے جہاں خوبصورت ماحول بنا کر بہت سے سیاسی غیر سیاسی سماجی، ادبی اور کھیلوں کی تقریبات کا انعقاد ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ پورا شہر اس موقع پر جگ مگا رہا ہوتا ہے۔ رونق اور سجاوٹ ایسی ہوتی ہے کہ دلہن بھی شرما جائے۔ خدا کرے تمام تر تلخیوں کے باوجود ہمارے کھیلوں کے میدان آباد رہیں اور ہمارے شہری ایسی خوبصورت پرجوش تقریبات میں شریک ہوں۔ اس موسم میں ہوا کا ایک نرم و لطیف جھونکا ہی بہت بڑی نعمت محسوس ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
امریکی سیاست بھی زلزلوں کی زد میں جوبائیڈن معمر اور ٹرمپ کو بھاری جرمانہ
کہتے ہیں دوست پر دوست کا رنگ تو چڑھتا ہے۔ لگتا ہے ہماری سیاست کا اثر بھی امریکہ پر پڑنے لگا ہے۔ وہاں بھی سیاسی افراتفری رنگ جما رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہاں کا سیاسی جمہوری نظام خاصہ مضبوط اور جاندار ہے وہاں لنکن۔ کینڈی نکسن ہو یا کلنٹن۔ ٹرمپ ہو یا جوبائیڈن کسی کے آنے جانے سے یا سلپ ہونے سے نظام حکومت میں طوفان نہیں اٹھتا۔ واشنگٹن ڈی سی میں کام کاج اور نظام حکومت اطمینان سے جاری و ساری رہتا ہے۔ جلسے جلوس ، ہنگامے ، ریلیاں، نظام حیات میں کوئی خلل ڈالے نہ ڈالے جمہوری نظام چلتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں چونکہ شخصیت پرستی کا راج ہے۔ یہاں ہر جماعت اپنے رہنما کو ملک بچانے کی آخری امید قرار دیتی ہے۔ حالانکہ تجربہ بتاتا ہے کئی آخری امیدیں آئیں اور چلی گئیں اور بفضل خدا ملک قائم و دائم ہے۔ اب امریکہ میں دیکھ لیں ٹرمپ کے حامی خاصے جارحانہ موڈ رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان پر مقدمات چل رہے ہیں گزشتہ روز انہیں فراڈ کے ایک مقدمہ میں ساڑھے 23 کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنائی دی گئی۔ مگر وہی بابر اعوان والی بات ’’نوٹس ملیا کھک نہ ہلیا‘‘ کوئی افراتفری نہیں مچائی گئی۔ ہمارے ہاں پیالی میں طوفان اٹھانے کی روایت ابھی تک چلی آ رہی ہے۔ دوسری طرف موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی عمر کے حوالے سے بھی نہ صرف وہاں کے لوگ بلکہ سچ کہیں تو انتظامیہ بھی پریشان ہے۔ وہ آئے روز مزید بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ کی نگاہیں ہمہ وقت ان پر لگی رہتی ہیں کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے مگر وہ ابھی تک فعال ہیں اور سارا نظام سلطنت اپنے مضبوط سسٹم کی بدولت چل رہا ہے۔ کوئی رہے نہ رہے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں کوئی ہو بھی تو نظام ہی خطرے میں رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
زیادہ بچے پیدا کریں۔ روسی صدر کا شہریوں پر زور
روس کے صدر پیوٹن کو اپنے ملک میں آبادی کم ہونے کا خوف لاحق ہے جبکہ ہمارے ملک میں ہر حکومت آبادی کنٹرول کرنے کے پروگرام دے دے کر ختم ہو جاتی ہے مگر کوئی اس پر کان نہیں دھرتا اور آئے روز ہمارے ملک میں شرح پیدائش بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بچوں پر بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں 3 یا 4 بچے تو عام بات ہیں۔ روس میں البتہ ایک یا دو بچے کے بعد بچوں کی پیدائش پر بریک لگ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب صدر پیوٹن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کم از کم 4 بچے پیدا کریں یعنی ہماری طرح کثیرالعیال ہوں تاکہ ملک کی آبادی کم نہ ہو جائے۔ روس میں جنگوں کی وجہ سے بہت سے لوگ مارے جا چکے ہیں بہت سے جنگوں کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر روسی صدر ہماری درخواست پر اگر ہمدردانہ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو مفت مشورہ ہے کہ فی الفور پاکستانیوں کے لیے روس میں مفت آباد ہونے کی نرم پالیسی اپنائیں تو وہ دیکھیں گے کہ اگر 5 لاکھ پاکستانی خاندان روس جاتے ہیں تو سال بعد ہی ان کی آبادی 10 لاکھ ہو جائے گی۔ یوں خودبخود روس میں آبادی کی کمی کا خطرہ ٹل جائے گا کیونکہ پاکستانی مستقبل سے بے نیاز ہو کر بچوں کی لائن لگانے پر یقین رکھتے ہیں۔ روس میں تو پاکستان کی نسبت بہرحال ان کو تھوڑی بہت خوراک، میڈیکل اور تعلیم کی سہولت میسر ہو ں گی تو وہ زیادہ دلجمعی سے آبادی میں اضافہ کی پالیسی پر خوشی سے گامزن ہو سکتے ہیں آزمائش شرط ہے۔ اس طرح پاکستان اور روس کے تعلقات بھی مضبوط ہوں گے اور ہماری معاشی حالت بھی بہتر ہو گی۔
٭٭٭٭٭
سکھ مظاہرین نے بھارتی ڈرون کے خلاف پتنگوں کا استعمال شروع کر دیا
بھارت میں کسان احتجاجی مظاہرین اور پولیس و سکیورٹی فورسز کے درمیان جو ’’یدھ‘‘ ہو رہا ہے اس میں دہلی کا راستہ پوری طاقت سے روکا جا رہا ہے۔ مودی سرکار نہیں چاہتی کہ گزشتہ مظاہرے کی طرح کسان دہلی میں داخل ہو کر حکومتی رٹ کا مذاق اڑائیں۔ چنانچہ اس بار رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ڈرون استعمال کرکے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے برسا رہی ہے۔ واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں بھی چل رہی ہیں۔ لاٹھی چارج سے فائرنگ سے درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ مگر لاکھوں کسان اپنے مطالبات منوانے کے لیے سراپا احتجاج ہیں اور دہلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب ان مظاہرین میں سب سے زیادہ پنجاب ہریانہ اور چندی گڑھ سے رکھنے والے پنجابی اور سکھ شامل ہیں۔ سچ کہیں تو یہ خالصتان سکھوں کا طاقت کا مظاہرہ ہے۔ ریلی میں ہر طرف خالصتان رنگ اور پرچم چھائے نظر آتے ہیں۔ اس مظاہرے سے ایک بات ضرور واضح ہو گئی ہے کہ سکھوں کے صرف 12 ہی نہیں بجتے‘ اس کے بعد ایک اور دو بھی بجتے ہیں جبھی تو اس بار ہوشیار سکھ نوجوانوں نے ڈرون کامقابلہ کرنے کیلئے پتنگوں کا استعمال شروع کر دیا ہے جیسے ہی آنسو گیس برسانے والے ڈرون آتے ہیں سکھ نوجون گڈیاں اڑا کر ان سے ان ڈرونز کو اْلجھا دیتے ہیں یوں یہ پتنگیں اینٹی ڈرون ہتھیار بن کر سامنے آئیں ہیں جن کی وجہ سے ان ڈرونز کو تاک تاک کر نشانہ لگانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اسے کہتے ہیں جہاں چاہ وہاں راہ۔ جو کام کرنا ضروری ہے اس کے لیے راہ بھی تلاش کر ہی لی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
پیر ‘ 8 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 19 فروری 2024ء
Feb 19, 2024