8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر پہلے تو صرف سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے تھے لیکن اب کچھ اور کردار بھی اس سلسلے میں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک کردار لیاقت علی چٹھہ جو کمشنر راولپنڈی ڈویژن کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہفتے کے لیے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے میچوں کے انتظامات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنے کے لیے بلائی گئی پریس کانفرنس کے موقع پر لیاقت علی چٹھہ نے اچانک عام انتخابات کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ میں الیکشن ٹھیک نہیں کروا سکا اور اپنے عہدے اور سروس دونوں سے استعفیٰ دیتا ہوں، مجھے سال سوا سال پہلے نگران حکومت نے صاف شفاف الیکشن کرانے کے لیے کمشنر راولپنڈی لگایا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے یہ غلط کام کیا ہے کہ راولپنڈی کے13 ایم این ایز (رکن قومی اسمبلی) کی ہاری ہوئی سیٹوں پر لوگوں کو جتوایا ہے اور70/70 ہزار کی لیڈ والوں کو شکست میں بدلا ہے اور آج بھی ہمارے لوگ بیٹھ کر جعلی مہریں لگا رہے ہیں، میں اپنے ماتحت کام کرنے والے ریٹرننگ افسروں (آر اوز) سے معذرت خواہ ہوں جن کو میں کہہ رہا تھا کہ وہ یہ غلط کام کریں اور وہ رو رہے تھے وہ یہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے، میں نے اس ملک اور ڈویژن کے ساتھ جو غلط کام کیا ہے اس پر مجھے کچہری چوک میں پھانسی دیدی جائے۔
ان الزامات میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تو چھان بین کے ذریعے ہی ہوگا لیکن مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد لیاقت علی چٹھہ کو کمشنر راولپنڈی کے عہدے سے ہٹا کر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے اور ان کی جگہ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سیف انور جپہ کو کمشنر راولپنڈی ڈویژن کا اضافی چارج دیدیا گیا ہے۔ سیف انور جپہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد عام انتخابات میں راولپنڈی ڈویژن کے اضلاع راولپنڈی، چکوال، جہلم، اٹک اور تلہ گنگ میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کے لیے طور پر کام کرنے والے عہدیداروں کو ساتھ لے کر ایک پریس کانفرنس کی جس میں لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن 2024ء کا شفاف انعقاد ہوا۔ اس موقع پر سیف انور جپہ نے وضاحت کی کہ الیکشن سے کمشنر کا کوآرڈی نیشن کے علاوہ کوئی تعلق نہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران ڈی آر اوز نے کہا کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ سابق کمشنر لیاقت چٹھہ کے الزامات کی تردید کرتے اور الزامات کی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی کمشنر راولپنڈی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں، کل مجھ پر چوری اور قتل کا الزام لگا دیں گے۔ الزام لگانا آپ کا حق ہے لیکن ساتھ ثبوت بھی تو دیں، الزامات تو کوئی بھی کچھ بھی لگا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہاکہ پاکستان میں ادارے ہیں، اداروں کو مزید تباہ نہ کریں۔ قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پٹیشن آتی رہتی ہیں، ان کا ہم فیصلہ کرتے رہتے ہیں، چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
ادھر، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا ہے کہ کمشنر راولپنڈی نے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق جھوٹ بولا ہے، میں ان کے الزامات کی تردید کرتا ہوں۔ میری کمشنر راولپنڈی سے انتخابات کے معاملے پر کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، انھوں نے میرا نام لے کر جھوٹ بولا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر راولپنڈی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن پر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتا اور الیکشن کمیشن کے کسی عہدے دار نے الیکشن نتائج کی تبدیلی کے لیے کمشنر راولپنڈی کو کبھی بھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ سکندر سلطان راجا نے مزید کہا کہ کسی بھی ڈویژن کا کمشنر نہ تو ڈی آر او، آر او یا پریذائیڈنگ افسر ہوتا ہے اور نہ ہی الیکشن کے کنڈکٹ میں اس کا کوئی براہ راست کردار ہوتا ہے تاہم الیکشن کمیشن اس معاملے کی جلد از جلد انکوائری کروائے گا۔
اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ لیاقت علی چٹھہ میرے قریبی دوستوں میں شامل ہے، جانتا ہوں کہ وہ کافی عرصے سے ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والا ذہنی طور پر تندرست نہیں ہوتا، شاید ان کا علاج بھی چل رہا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی 12 صوبائی اور 6 قومی سیٹوں کی طرف بعد میں جائیں، پہلے لیاقت علی کی ذہنی صحت کا تعین ہونا چاہیے اور اگر ان کی ذہنی صحت ٹھیک ہے تو انھیں بطور گواہ پیش کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا ہے کہ کمشنر نے تو چیف جسٹس کو بھی الزام کے دائرے میں رکھا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہت بڑے الزامات ہیں فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہئیں، کمشنر راولپنڈی کو اپنے الزامات کے ثبوت بھی دینے چاہئیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی اہم عہدیدار نے عام انتخابات سے متعلق دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان نے اسی قسم کے الزامات لگائے تھے اور اس سلسلے میں اس وقت کے چیف جسٹس محمد افتخار چودھری کا نام بھی لیا تھا لیکن جب الیکشن کمیشن پنجاب کے رکن جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی نے افضل خان کے خلاف دو کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا تو انھوں نے اپنے الزامات پر غیر مشروط معافی مانگ لی۔ اس سب کے باوجود سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے اور انھیں پورا موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کریں کیونکہ یہ صرف ایک ڈویژن کے انتظام یا انتخابات کا انعقاد میں گڑبڑ کا معاملہ نہیں بلکہ ریاست کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔