دائرے …اویس منیر
munirawais854@gmail.com
پاکستان کی سیاسی تاریخ مثالی ہے نہ قابل تقلید …!! یہ تلخ حقیقت ہے کہ یہاں سیاسی نظام پر سیاہ دھبے موجود ہیں جنھوں نے پورے نظام کی شکل بگاڑ رکھی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہم بطور قوم کنفیوژن کا شکار ہو گئے کہ اس ملک میں کونسا نظام چلے گا ؟ کیا اس ملک میں جمہوریت قائم ہو گی ،یا کسی قسم کی آمریت ہو گی ۔سیاسی اداروں کو مضبوط ہونے کا موقع نہیں دیا گیا ۔پہلا آئین ہی تاخیر کا شکار ہو ا اور جب بنا تو اس کے بعد ملک میں مارشل لا ء لگ گیا ،جب مارشل لا ء کا دور ختم ہوا اور جمہوریت کا سفر شروع ہوا ،ملک میں انتخابات کروائے گئے جو کہ 1970ء کے انتخابات تھے ،اس کے بعد کیا ہوا سب کو معلوم ہی ہے ،ملک دو لخت ہوا اور جمہوریت بھی ہاتھ سے جاتی رہی ۔ایک بار پھر دور آمریت آیا اور اس دور میں ملک کا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ،ملک میں انتہا پسندی پنپی اور ملک کو معاشی طور پر بھی نقصان ہوا ،آخر کار ہچکولے کھاتی ہو ئی جمہوریت پٹری پر چڑھتی ہو ئی دیکھائی دی تو ہمیں ایک ہائبرڈ نظام کی بازگشت سنائی دینے لگی ،کہا گیا کہ سیاست دانوں نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومتیں کرنا شروع کردیں ہیں ،اور اب ملک میں اب ایسا ہی چلے گا ،لیکن پھر ہم نے دیکھا ملک میں کیا جانے والا ہائبرڈ نظام کا یہ تجربہ بھی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوا اور ساڑھے تین سال کے بعد ہی ایسا باہم دست و گریبان ہوا کہ ملک کی حالت بگاڑ کر رکھ دی معیشت تباہی کا شکار ہو ئی ،اور عوام میں پو لر ئزیشن اس حد تک بڑھ گئی کہ ہم نے دیکھا کہ بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا اور گھروں کے اندر فساد ہو گئے ،پوری دنیا میں ملک اور قوم کا مذاق الگ بنا اور ریاست الگ کمزور ہو ئی ۔ہمارے سیاست دانوں سے جب بھی ان کی کارکردگی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے یہ ہی کہا کہ ہمیں تو آج تک کھل کر کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تو ہم سے کا رکردگی کا سوال کیسا ؟ اسی طرح سے جب مقتدر حلقوں سے ملکی حالت کے بارے میں استفسار ہو تا ہے تو وہاں سے جواب آتا ہے کہ سیاست دان کرپٹ ہیں اور ان کو کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں آتا ہے اور ملک میں خرابیوں کی یہی وجوہات ہیں ۔لیکن آج تک حل کسی نے نہیں بتایا کہ آخر ملک کو ان بحرانوں سے کس طرح سے نکالا جائے ؟بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میںجس قسم کی دراڑیں پڑ چکی ہیں ،وہ کیا کسی انتخابی عمل سے پر کی جاسکتیں ہیں ؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر انتخابات سے بھی معاشرے اور سیاست میں پڑنے والی دراڑیں پر نہیں ہو سکتیں ہیں تو پھر اس کا کیا طریقہ کا ر ہو گا کہ معاشرے میں پائے جانے والے سیاسی ہیجان کو کم کیا جائے ؟اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی دی جاتی ہے کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر ملک میں ٹرتھ اینڈ ری کو نیسلیشن کمیشن قائم کیا جائے اور سب اس کمیشن میں پیش ہو کر اپنے گناہوں کا اعتراف کریں ۔اور پھر معافی تلافی کا سلسلہ ہو اور پھر ملک آگے بڑھے ۔گرینڈ ڈائیلاگ کی بات بھی کی جاتی رہی ہے لیکن کبھی بھی اس حوالے سے عمل نہیں ہو سکا ہے ،اور نہ ہی یہ تجویز کوئی عملی صورت اختیار کرسکی ہے ۔بہر حال ماضی کی تمام تلخیوں ،گزشتہ ہا ئبرڈنظام کی ناکامیوں اور گزشتہ دو سال کے سیاسی ہیجان اور معاشی تنزلی کے پس منظر میں عام انتخابات 2024ء ہونے جارہے ہیں ،اور خوش آئند بات یہ ہے کہ الیکشن ملک میں ہو رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک نے تو وہ دور بھی دیکھے ہیں جن میں کہ الیکشن ہو ا ہی نہیں کرتے تھے اور اس مرتبہ بھی الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے بہت سے خدشات اور تحفظات پائے جاتے تھے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں ؟ کسی حد تک یہ خدشات اور خطرات قدرتی بھی تھے لیکن بڑی حد تک جان بوجھ کر ہیجان پھیلانے کے لیے بھی ایسے شوشے چھوڑے جارہے تھے اور اس کام میں سیاسی عناصر کے علاوہ ،کچھ میڈیا کے عناصر بھی شامل تھے جو کہ باقاعدہ طور پر انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے زور لگاتے رہے لیکن انتخابات کی تاریخ آئی اور اب انتخابات بھی ہو رہے اور شاید جب تک یہ تحریر آپ تک پہنچے گی تب تک انتخابات کے نتائج بھی سامنے آچکے ہوں لیکن سوال ابھی تک یہی ہے کہ کیا یہ الیکشن ملک میں سیاسی استحکام لانے کا باعث بن سکیں گے ؟ الیکشن سے قبل ہی لیول پلئنگ فیلڈ کے حوالے سے ایک فضا بننا شروع ہو گئی تھی اور اب بھی یہی صورتحال ہے کہ کئی جانب سے الیکشن کی شفافیت اور معیار پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں لیکن جو جماعتیں الیکشن کے عمل پر اعتراض اٹھا رہی ہیں یہی جماعتیں اگر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہیں تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور اگر نہیں جیتتی ہیں تو پھر ہر طرف سے دھاندلی دھاندلی کا شور اٹھے گا ، الیکشن متنازع تو ہوں گے لیکن بات پھر وہیں آجا ئیگی کہ پاکستان میں آخر کو نسے الیکشن ہیں جو کہ متنازع نہیں ہو ئے ہیں ؟ الیکشن ہو جائیں گے اور حکومت بھی بر سر اقتدار آجائے گی اور سب کو نہ چاہتے ہو ئے تسلیم بھی کرنی پڑے شاید کچھ جماعتیں الیکشن کے بعد پارلیمان کے باہر یا پارلیمان کے اندر مزاحمت کا راستہ بھی اختیار کریں ،اور ملک ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کی جانب بڑھے لیکن موجودہ معاشی اور سماجی صورتحال میں ملک کسی طور پر بھی کسی بھی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہونے کا متحمل نہیں ہے ،اور صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے جو بھی سیاسی جماعت بر سر اقتدار آئے گی اس کے اوپر بھاری ذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے سب کو ساتھ چلنے کی دعوت دے ،اور حکومت کے امور سنبھالنے کے فورا ً بعد ہی ملک میں ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بھی جائے ،اور ملک میں پائی جانے والی شدید سیاسی پو لر ئزیشن کو بھی لگام ڈالے اور قوم کو متحد کرے ۔الیکشن ہو رہے ہیں ،حکومت بر سر اقتدار آجائے گی لیکن اصل چیلنج ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کو ریلیف مہیا کرنا ہی ہو گا ۔کیونکہ موجودہ حالات میں الیکشن بذات خود کسی بھی طرح سے سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں ہیں ۔