بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
برطانوی جریدے کی ہفتہ وار اشاعت میں پاکستان کے نظام حکومت کو آمرانہ کہ کراسے جمہوری رویوں سے متصادم قرار دیا گیا۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں 7.8 فیصد مکمل جمہوریت کے حامی ہیں جبکہ کل آبادی کا 39.4 فیصد حصہ آمرانہ حکومتوں کے زیر تسلط ہے۔ ہمیں رپورٹ سے کچھ لینا دینا نہیں نہ ہی برطانوی میگزین کی تحقیقاتی رپورٹ سے غرض ہے۔ ہماری منشاء اور خواہش یہ ہے کہ مسائل حل ہوتے رہنے چاہیں۔ جن جن ریاستوں میں حکمرانوں اور رعایا میں فاصلے کم ہیں وہاں مسائل ڈھونڈنے سے نہیں ملتے!! اور جہاں اہل اقتدار اور عوام میں دوری کے پتھر ہوں وہاں مسائل در مسائل لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے موجود رہتے ہیں۔
ہمیں سکینڈے نیوین ممالک میں سفر اور وزٹ کے مواقع ملے۔یقین جانیے وہاں لوگوں کا معیار زندگی دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے۔ حکومت ایک ایک شہری کی جان ومال کے ساتھ شہریوں کے لیے تعلیم' صحت اور روزگار کے لیے بھی اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے۔ آپ ناروے' کینیڈا' آسٹریا اور جرمنی کا دورہ کریں آپ کو ہر شخص ملازمت کی ریشمی دوڑی میں بندھا نظر آئے گا۔کئی ممالک میں عمر لاء کے تحت بچوں کی پیدائش کے ساتھ انکا وظیفہ مقررکر دیا جاتا ہے۔ جب تک بچہ دودھ پیتا رہے ماں کو اس پاکیزہ فرض پر سرکار وظیفہ (معاوضہ) دیتی ہے۔ بچہ کی صحت اورتعلیم حکومت کے ذمے ہے جیسے ہی وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتا ہے۔ میونسپل سکول سے کارندے فیملی سربراہ کو متعلع کرنے آجاتے ہیں کہ فلاں سکول میں اس تاریخ سے بچے نے ان رول ہونا ہے۔ ٹرانسپورٹ' ہیلتھ اورکتابوں کی صورت حال سب کے سب سرکاری ذمہ داری ہے۔ طالب علم کی تعلیم مکمل ہونے سے فراہمی روزگار تک کے مراحل طے کرنے میں ریاست کا کردار سر پرستانہ ہوتا ہے۔ جب تک روزگار کی چھاؤں نہ ملے اس وقت تک گورنمنٹ ایک خاص رقم ''روزگار الاؤنس'' کے نام پر بیروزگار گریجویٹ کے اکاونٹ میں منتقل کرتی ہے۔ یہ ہے اس فلاحی ریاست کے خدوخال جس کا سہرا دین اسلام کے سر ہے!!
مدینہ کی ریاست نے ایسی زریں اور مثالی نظام حکومت پیش کی جس کی نظیر صبح قیامت تک ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ دنیا میں بے شمار ریاستیں ایسی ہیں جو آج بھی اسلامی نظام حکومت اور طرز حکمرانی سے روشنی لے رہی ہیں۔ ہم نے آغاز میں عمر لاز کا تذکرہ کیا۔ غیر مسلم حکومتوں میں عمرلاز کا نفاذ آپ کو حیرت کے سمندر میں ڈال دیگا۔ آپ ذرا خلیفہ دوم کے قابل رشک زمانے پر ایک نظر ڈالیں۔امیر المومنین حضرت عمر کا عہد جس کے بارے میں یہ جملہ تاریخ کا ایسا معتبر حوالہ ہے جس سے نظام حکومت کا معیار ناپا اور تولا جاسکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں '' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا تو عمر سے اس کی پوچھ گچھ ہوگئی'' یہ ہے حکمران اور رعایا کا وہ تعلق کی جس کی بنیاد پر اسلامی حکومتیں شبانہ روز لوگوں کی فوذوفلاح میں مصروف رہیں۔ خلیفہ دوم کے اسی عہد میں حکومت نے بچوں کو پیدائش کے اڑھائی برس بعد وظیفہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ قرآن مجید میں ماؤں کو حکم ہے کہ وہ بچوں کو پیدائش پر ایک خاص مدت تک دودھ پلائیں، دنیا کے تمام حکماء ' طبیب اور ماہر معالج متفق ہیں کہ ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی خوراک بچے کے لیے طاقتور نہیں خلیفہ دوم کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ دو (یا اڑھائی ) برس بعد جب بچہ ماں کا دودھ پینا چھوڑ دے تو اس کے لیے فریضے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ قانون نافذ تھا، ایک مرتبہ حضرت عمر کا گزر ایسے مقام سے ہوا جہاں مائیں بھی نوزائیدہ بچوں کے ساتھ شریک تھیں۔ محفل میں کوئی بھی آپ کو پہنچان نہ سکا۔ حضرت عمر اکثر لوگوں کے مسائل کی جانکاری کے لیے بھیس بدل کر گشت کرتے۔ آپ نے ایک عورت سے بچے کے مسلسل رونے کیوجہ پوچھی تو خاتون نے جواب دیا کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے گا تو اس کا وظیفہ جاری ہوگا۔ جلد وظیفے کی خاطر بچے سے چھڑوا رہی ہوں، یہ سن کر حضرت عمر لوٹے…… اور آفس (سیکرٹریٹ ) سے فرماں جاری کرادیا کہ آئندہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی دودھ پلانے کا وظیفہ جاری ہوگا۔ یہ ہے اسلامی نظام حکومت اور یہ ہے فلاحی ریاست!!
پاکستان کے آئین کے ابتدائی حصہ میں قرارداد مقاصد کو اہم جگہ دی گئی ہے جس میں بنیادی نوعیت کے اموردرج ہیں جس میں اللہ کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا گیا۔ بندے اللہ کے نائب کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔ اسی قرارداد مقاصد میں اسلامی وفلاحی مملکت کی ضمانت دی گی۔ قوم 76 برس سے فلاحی مملکت کی تلاش میں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد دو تین نسلیں فلاحی ریاست کا خواب آنکھوں میں لئے خاک کے سپرد ہوگئیںمگر یہ خواب تعبیر نہ ہوسکا۔آج کے حالات اور آج کی حکومت بھی عام آدمی کی زندگی میں سکھ اور چین کی روشنی نہ پہنچا سکی۔ دو کروڑ گریجویٹ بیرزوگار ہیں، ڈھائی کروڑ بچے سکول ایجوکیشن سے دور ہیں۔ 25 کروڑ میں سے 13 کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ لاہور' کراچی' راولپنڈی' اسلام آباد ' مظفر آباد اور پشاور کے ہسپتال شہری ضرورتوں کے لیے ناکافی ہیں۔ وطن عزیز میں منہگائی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے۔ معاشرتی زندگی سے پھل اور تفریح تقریباً مائنس ہو چکے ہیں۔ نگران حکومت نے 67 فیصد گیس مہنگی کرکے اس کا نفاذ یکم فروری 2024ء سے کر دیا ہے حالانکہ یہی حکومت نومبر 2023ء میں 200 فیصد گیس مہنگی کر چکی تھی۔ جنوری کے آغاز میں بجلی مہنگی کی تھی۔ چار روز قبل پٹرولیم مصنوعات کے نئے نرخ نافذ کیے گئے۔ ابھی رمضان المبارک کی آمد میں تین ہفتے باقی ہیں۔ ماہ صیام میں منہگائی کا گھوڑا جس رفتار سے دوڑے گا اس کا علم ہر پاکستانی اور ہر مسلمان کو ہے!!
جب ہم خود سے فلاحی ریاست کے قیام کا سوال کرتے ہیں تو جواب میں خاموشی ہی کو عافیت سمجھ لیا جاتا ہے!! یاد ہے ناں بات شروع ہوئی تھی دی اکانومنسٹ کے عطاکردہ ہائبرڈ نظام حکومت سے…!!
ہائبرڈ نظام حکومت؟
Feb 19, 2024