پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
ایک عمر گزر گئی ہے انتخابات دیکھتے ہوئے ،انتخابات سے پہلے کی نعروں اور وعدے سنتے سنتے کان پک گئے ہیں، انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کی گردان زبانی یاد ہوگئی ہے،سیاستدانوں کے سچ جھوٹ بنتے ہوئے دیکھے ہیں، عوام کے حقوق کے بعد انکی جیبوں پردن دیہاڑے ڈاکے مارنے کا سلسلہ مستقل جاری ہے، صورتحال یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت برداشت اور جیب دونوں سے باہر ہوگئی ہے،بجلی کے بلوں نے تو پہلے ہی عوام کو پھانسی پر ٹانگ رکھا تھا اب تین سو روپے تک آنیوالا عام گھر کے گیس کا بل پچاس ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے، عوام دوائیوں کے بغیرمررہے ہیں، لیکن کسی کو رحم نہیں آرہا ہے کہ غریب عوام کیسے جینے کا سامان کریں ؟وہ تو اس جینے کے ہاتھوں ہی مرتے جارہے ہیں،
اب تو عوام برملا سوال کررہے ہیں کہ کب تک انکو دکھائے گئے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے انکو ہی قربانیاں دینی پڑیں گی؟ جو سیاستدان عوام کو خواب دکھا تے ہیں اپنے وعدے وہ کب پورے کریں گے؟ کب ان کا ملک نفرتوں سے پاک ہوگا؟ کب انا کی آگ بجھے گی ؟ کب بدلے کا جوالا مکھی ٹھنڈا ہوگا؟ کب پاکستان عوام کیلئے محفوظ ہوگا؟ کب کمزور ملک مضبوط وطن کا روپ دھارے گا؟ کب تمام سیاستدان مل کر حقیقت میں ملک کی حفاظت اور عوام کی خوشحالی کیلئے دن رات کردیں گے؟ کب کوئی ا?ئیگا جو سب سے مل کر ترقی کا راستہ ہموار کریگا؟
کب ہمارے کسانوں کو خوشحال نصیب ہوگی؟ کب غریبوں کو سستی روٹی باآسانی دستیاب ہوگی؟ کب سستی بجلی، پانی گیس سب کیلئے عام ہو گی؟ کیا ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ اور روشن ہو گا؟ کب باہر سے انگریز پاکستان میں نوکریاں کرنے آئیں گے؟ کب ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک کا درجہ پاسکیں گے؟ کب ہماری بیٹیاں یہ فخر سے کہہ پائیں گی کہ ہم پرامن اور محفوظ پاکستان میں پڑھتی ہیں؟ کب ریاست ماں کے درجے پر فائز ہوگی؟ کب ریاست بچوں کا دودھ، نوجوانوں کا روزگار اور بوڑھوں کی پنشن کی فراہمی بارے اپنی مکمل ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کریگی؟
شکوک و شبہات وخدشات کے باوجود ملک میں آخرکار عام انتخابات ہو ہی گئے، متوقع سیٹیں نہ ملنے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ ن نے سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے لیکن قومی اسمبلی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی جس کے بعد مخلوط وفاقی حکومت میں شہباز شریف وزیر اعظم بنیں گے، نئی وفاقی حکومت کی مدت کتنی ہوگی اس بارے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے، سادہ اکثریت نہ ملنے پر نواز شریف نے وزیر اعظم نہ بننے کا قول نبھا کر ایک نئی مثال قائم کردی ہے، کہا جارہا ہے کہ عملی طور پر نواز شریف کا پارلیمانی کردار ختم ہوجائیگا لیکن یہ کہنے والے نوازشریف کو جانتے نہیں ہیں، و ہ اتنی آسانی سے اپنا کردار بالکل ختم نہیں کریں گے، انھوں نے مکمل رہنمائی دیکر مریم نواز شریف کو اسی راستے پر گامزن کرنا ہے جہاں سے وہ معاملات چھوڑ رہے ہیں، اس مشکل صورتحال میں مسلم لیگ کو ایک بار پھر نئے سرے اپنی شناخت قائم کر کے اپنی مقبولیت کو حاصل کرنا ہے، یہ اتنا آسان نہیں ہوگا، مریم نواز کے سامنے شہباز سپیڈ کے کامیاب منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے نہ صرف برقرار کرنا ہے بلکہ نئے اہداف بھی حاصل کرنا ہیں، وہ کہاں تک اس بات کو یقینی بناتی ہیں یہ آنیوالا وقت بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ مستقبل کے چینلجز آسان ہرگز نہ ہوں گے، پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے طور پر مریم نواز کے نام پر تنقید کرنیوالے ذرا یہ تو بتادیں کہ عثمان بزدار، پرویز خٹک اور محمود خان جیسے وزراء اعلیٰ کی ناقص کارکردگی اور کرپشن پر وہ کیوں خاموش رہے؟ وہ نہیں جانتے کہ مریم نواز شہباز سپیڈ کی بھتیجی بھی ہیں، انھوں نے اپنے والدین کیساتھ ساتھ اپنے چچا اور چچا زاد بھائی دونوں سے بہت کچھ سیکھا ہوا ہے اور انکی راہ پر چل کر یقینی کامیابی پا سکتی ہیں، مریم نواز گواہ ہیں کہ شہبا ز شریف وہ واحد وزیر اعلیٰ تھے جنکے بارے بیوروکریسی نے ہمیشہ ایک ہی شکایت کی کہ یہ بندہ نہ خود سوتا ہے نہ ہمیں سونے دیتا ہے، جو منصوبہ بھی ایک بار سوچ لیتے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دن رات کردیتے تھے، کبھی گالی گلوچ کبھی غیر ڈانٹ ڈپٹ یا بدزبانی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ تمام ماتحتوں کو اپنے عمل سے وقت کی قدر کرنا سکھایا کرتے تھے، پنجاب کے باشندے ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تھے جب وہ کسی نہ کسی بڑے منصوبے کی سائیٹ پر پہنچ کر اس کا جائزہ لے رہے ہوتے تھے، منصوبے کی بروقت تکمیل کیلئے ذاتی ڈائری برقرار رکھنا انکی مستقل عادت تھی،وہ چلتا پھرتا ایک ٹائمر تھے کہ کون سا منصوبہ کب شروع ہوا ہے اور کیسے اسے وقت سے پہلے ختم کرنا ہے۔