خیبر سے کراچی تک


خیبر میل پاکستان ریلوے کی ایک برق رفتار ریل گاڑی ہے جو ۱۹۴۷ سے تاحال پشاور اور کراچی کے درمیان متحرک ہے ۔ خیبر میل کے زریعے کی گئی ناقا بل فراموش مسافرت کی وجہ سے اس ریل سے ایک قلبی وابستگی ہے ۔ چند دن پہلے کراچی کی جانب رختِ سفر باندھتے اور وہاں پہنچنےکےوسیلے  کا انتخاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر خیبر میل کا ذکر ہوا تو ذہن کے پردے پر بہت سی باتیں ابھر کر روشن ہو گئیں ۔   یہ جملہ “ خیبر سے کراچی تک “ اسی ریل گاڑی کے توسط مجھ تک پہنچا تھا ۔ گزشتہ الیکشن میں بھی اس کی جملے کی بازگشت کئی بار سنائی دی جب امیدواروں نے فردوسِ فردا کے سہانے خواب دِکھلاتے ہوئے خیبر سے کراچی تک کو جنت نظیر بنانے کی یقین دہانی کروائی ۔ اجتماعی  طور پر ملک کے طول و عرض کے لیے کوئی بیان ہو تو اس جملے کا استعمال کافی زور و شور سے کیا جاتا ہے ۔یہ الفاظ ذہن کے کسی گوشے میں موجود رہے اور وقتا فوقتا تجدید ی عمل بھی جاری رہا  مگر اس کی معنوی مُکَمَّلِیَت کا احساس  روشنیوں کے شہر کراچی جا کر ہوا ۔   کے پی کے اور سندھ کے کئی چھوٹے بڑے شہروں کو قریب سے دیکھنے  اور وقت گزارنے کے باوجود آج تک شہر ِ تاباں کی پر رونق اور درخشاں فضاؤں کو محسوس کرنے سے محروم تھی اگرچہ پشاور اور کراچی کے اس سفر میں تقریبا بیس دن کا وقفہ تھا مگر ایک جملے کی ذہن میں  غیر ارادی موجودگی نے  اس سیاحت میں  ایک خوب صورت سا ربط پیدا کر دیا ۔ پہلے ذکر  کروں کراچی کا  تو  مزار قائد سے بنس روڈ تک اور بنس روڈ سے دو دریا تک  جہاں جہاں بھی ٹھہرے ایک اپنائیت اور محبت کا احساس ہوا   ۔ پرُ رونق اور شاندار ساحلوں پر ثقافتی کثرت اپنی مکمل رنگا رنگی کے ساتھ نمایاں ہے  ۔کم و بیش یہی حالات جنوب مشرقی ایشیاء کے قدیم ترین شہر پشاور میں نظر آئے ۔ تقریبا چار سال بعد پشاور کے بازار اور ایک پرانی دوست سے ملنے پر محبت اور خلوص کی وہی  صورت نمایاں تھی جس کا تصور لیے پشاور داخل ہوئی ۔
بقول شاعر 
میرے وطن کے تمام رستوں میں رنگ بکھرے ہیں موسموں کے
کہیں پہ فطرت کی چاشنی ہے کہیں پہ قدرت کہ نیرنگی ہے 
کراچی کے بازار وں میں کاروباری داؤپیچ سے مکمل آگاہ  دکاندار ہوں  یا پشاور میں کپڑے کا کاروبار سے وابستہ افراد  ،نو شہرہ  کے کسی ہوٹل کا ویٹر یا حَب کی سرحد عبور کرتے سڑک کی جانب بنے ڈرائیور ہوٹل کا "چھوٹو " خیبر سے کراچی تک کسی کے انداز میں بھی ڈھونڈنے پر بھی نفرت یا شدت پسندی  دکھائی نہیں دی ۔ مگر ایک شے جو بہت  واضح انداز میں دکھائی دی وہ متوسط طبقے کی وہ  اضطرابی کیفیت ہے  جس سے اسے روزانہ  دو وقت کی باعزت  روٹی حاصل کرنے کے لیے   گزرنا پڑتاہے  ۔ افراطِ زر کے نتیجے میں مہنگائی اور پھر بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ ایسے میں وطنِ عزیز کسی  علاقائی ، لسانی یا فرقہ ورانہ مُخاصَمَت کا متحِمل نہیں ہو سکتا ۔ سوچ ، نظریات ، مذ ہبی عقائد  اور سیاسی وابستگیاں کس طرح بھی وجۂ منافرت نہیں ہونی چا ہیے ۔اپنے کسی بھی مقصد کے لیے ابنائے وطن میں نفاق و فساد کے بیج بونے والے یہ بات کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ جو بو رہے ہیں وہی کل کاٹنا بھی پڑے گا ۔ 
قتیل شفائی نے کیاخوب کہا 
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے 
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں 
آج سوشل میڈیا کا دور ہے  کوئی  بھی معاملہ ہو  آڈیو یا ویڈیو کی صورت  میں منظر  عام پر  آتے ہی کسی بھی تحقیقی نقطہ نظر کے پیش کیے جانے  سے پہلے وائرل ہو چکا ہوتا ہے ۔مقصد ذاتی  ہو یا اجتماعی ، سیاسی ہو یا غیر سیاسی  ریاست کے ستونوں پر بغیر سوچے سمجھے حملہ آور ہونے سے  ارادی یا غیر ارادی طور پر ملک کی بنیادوں کو کوکھلا کیا جاتا ہے ۔ اگر بنیادیں ہی  کمزور کر دی جائیں تو عمارت کیسے قائم رہ سکتی ہے ۔ الزامات اور منظم طریقے سے پھیلائے گئے پروپیگنڈے سے تنگ نظری اور تعصب کی فضا پروان چڑھتی ہے  ۔ اور ہمہ  وقت کسی نا کسی انتشاری صورت حال کا سامنا رہتا ہے ۔تخریبی عناصر کی ریشہ دوانیاں اور اس کے جواب میں کئے گئے عارضی اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات اس وقتی پراگندگی کو تو قابو کرسکتے ہیں مگر اصل خرابی کی جانچ اور مستقل حل کی جانب شعوری کوشش کا فقدان دیگر کئی مسائل کو جنم دیتا ہے جس کا نشانہ بِالْآخِرغریب اور متوسط طبقہ ہی بنتا ہے ۔ بظاہر متغیر اور فلاح و ترقی کی جانب مائل ، مگر کئی  دہائیوں سے ایک ہی چلن پر آمادہ سیاسی جمع تفریق میں پاکستان کے عوام کا احساس اور حقوق کی پاسداری سب سے آ خر میں آتی ہے  ۔مُصْلحِین اور ناصحین کی ایک  بڑی تعداد موجود ہے اور دانشور بھی اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں ۔میں اور مجھ جیسے بہت سے عام افراد فقط یہ تمنا رکھتے ہیں کہ شاید اب “ خیبر سے کراچی تک “ عوام کو مصائب سے نجات ملے گی ۔ ذاتی مفاد قومی مفادات سے ہم آہنگ ہونگے اور ہمیں بھی خوشحال پاکستان دیکھنا نصیب ہو گا ۔
جویریہ اعجاز .javeria.ajaz87@gmail.com

ای پیپر دی نیشن