پاکستان ریلوے کی کہانی…کل اور آج

یوسف برکت پال

پورے برصغیر سے سب سے پہل ریل کراچی میں چلنا شروع ہوئی29 اپریل1857 کو کمشنر سندھ بار ٹلے فرئیر نے زمین کے ایک ٹکڑے پر کدال مار کر چھاو¿نی سے کیماڑی تک ریلوے لائن بچھانے کے کام کا افتتاح کیا۔ جنوری1859 میں کراچی چھاو¿نی اسٹیشن سے کیماڑی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام مکمل ہوا اس کے بعد ریلوے ورکشاپ سے گزری بند روڈ تک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ سندھ ریلوے کمپنی جس نے ریلوے لائن بچھانے کا کام انجام دیا چار سال قبل 1855میں لندن میں قائم ہوئی تھی اور اسی سال دسمبر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کے درمیان کراچی سے کوٹری تک ???میل طویل ریلو ے لائن بچھانے کا معاہدہ ہوا۔1861ئ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور کوٹری سے کراچی تک ٹرین چلنے لگی۔ اس کوٹری اور حیدرا باد کے درمیان پل تعمیر نہیں ہوا تھا وہاں سے مال کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا نومبر1879 میں حیدر آباد سے ملتان تک ریلیں چلنے لگیں۔ اور پھر1886 میں کوٹری اور کوئٹہ کے درمیان بھی ریلیں چلنا شروع ہو گئیں۔ ابتدا میں سندھ پنجاب اور دہلی کے لئے علیحدہ علیحدہ ریلوے کمپنیاں قائم کی گئیں تھیں۔1870میں ان تینوں کمپنیوں کو ملا کر ریلوے کمپنی سندھ پنجاب دہلی ریلوے کمپنی قائم کی گئی۔1886میں حکومت نے شمال مغربی علاقوںکی تمام ریلوے لائن خرید کر نارتھ ویسٹرن ریلوے این ڈبلیو آرکے نام سے ریلوے کمپنی قائم کی اس کا آخری اسٹیشن کراچی تھا۔اس وقت کراچی کے دو ریلوے اسٹیشن تھے ایک سٹی اور دوسرا فرئیر اسٹریٹ اسٹیشن (کینٹ اسٹیشن) جون1889میں نیٹی جیٹی پل اور کیماڑی کے درمیان نیپیئرا مول کی جگہ ایک آہنی پل کی تعمیر مکمل ہو گئی۔23مارچ1890 میںسکھر اور روہڑی کے درمیان پل کی تعمیرمکمل ہو گئی اور حیدر آباد اور کوٹری کے درمیان پل کی تعمیر شروع ہوئی اور مئی 1900 میں تعمیر مکمل ہوئی اور28مئی1900 کواس کا افتتاح بھی ہو گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میاں بیوی کے جھگڑے نے ریلوے کا 3کروڑ کا نقصان کروا دیا۔بھارت میں ریلوے کے ایک ملازم کا اس کی بیوی سے جھگڑا۔بھارتی ریلویزے کو 3کروڑ روپے نقصان پہنچانے کا باعث بن گیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس غلط فہمی کی شروعات فون پر ہوئی معمولی گفتگو سے ہوئی۔ جس نے ریلوے ملازم کے لئے قانونی اور ذاتی مسائل کی 12سالہ داستان کو جنم دیا اور بالآخر معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔ واقعے کا مرکزی کردار ایک اسٹیشن ماسٹر ہے جس کی ازدواجی زندگی کئی سال سے مشکلات کا شکار تھی۔ ان کی بیوی کا اپنے سابق ساتھی کے ساتھ جذباتی تعلق تھا۔لاہور ریلوے پولیس نے مسافروں کے 17لاکھ سے زائد کے طلائی زیورات لوٹا دیئے۔ ریلوے پولیس لاہور ڈویڑن نے فرض شناسی اور ایمانداری کی مثال قائم کر دی۔ ریلوے مسافروں کے 17لاکھ سے زائد مالیت کے گمشدہ طلائی زیورات لوٹا دہیے ایک اور کاروائی میں ریلوے مسافر اقصٰی جاوید ٹرین علامہ اقبال ایکسپریس میں دوران سفر اپنا بیگ بھول گئی تھی بیگ میںطلائی زیورات بالیاں،2لاکٹ چین، 2چوڑیاں، 2انگوٹھیاںموجود تھیں۔ ایس ایچ او سیالکوٹ رانا شاہد نے خاتون کے قیمتی زیورات بحفاظت اس کے حوالے کئے۔ خاتون مسافر عاصمہ کو اس کا گم شدہ بیگ واپس کیا گیا بیگ میں طلائی زیورات بالیاں،2لاکٹ چین، 2چوڑیاں، 2انگوٹھیاںموجود تھیں۔خاتون مسافر ٹرین سبک رفتار میں اپنا بیگ بھول گئی تھی۔ سب انسپکٹر اکرام ڈوگر اور انچارج ہیلپ ڈیسک لاہور نورین افضل نے طلائی زیورات بحفاظت خاتون کے حوالے کئے۔ دونوںمسافروں نے ریلوے پولیس کی فرض شناسی کو سراہتے ہوئے شکریہ اد اکیا۔ مجھے26نومبر 2024 پنڈی سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ مارگلہ اسٹیشن کا رخ کیا بجلی بند ہونے کی وجہ سے ہم نے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ کاو¿نٹر پر ہمیںکافی دیر تک ٹکٹ لینے کے لئے انتظار کرنا پڑا۔ کیونکہ خاتون مسلسل فون پرمصروف تھی۔ خداخیر کر کے ہم نے ٹکٹ وصول کی اور اگلے روز تقریباً 2بجے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ریلوے اسٹیشن پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پورا پاکستان ہی امنڈ آیا ہے۔ ہم نے راولپنڈی اسٹیشن پر یاد گار تصویریں بنوائی۔ ٹرین نے جوہی ہارن بجایا۔ تمام مسافر اپنی اپنی سیٹوں پر چلے گئے۔ ٹرین آہستہ آہستہ کراچی کی طرف گامزن تھی۔ کچھ ہی دیر بعد واش روم میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے تمام مسافر پریشان تھے۔ جب میں نے ریلوے حکام سے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ پوچھی تو کوئی مناسب جواب نہ ملا۔رات تقریباًنوبجے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پہنچنے پر پانی کا انتظام کیا گیا ٹرین میں موبائل چارجنگ اور صفائی کے نامناسب انتظامات دیکھنے کو ملے۔ لیکن آئے روز ریلوے حکام کرائے بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ اگلے روز تقریباًچار4بجے لانڈھی اسٹیشن پہنچی۔ ریلوے کی ہزاروں مسافر بوگیاں اور مال گاڑی کے ڈبے ناکارہ پڑے ہیں۔ جو تباہ حال اسکریپ بن چکے ہیں۔ مگر ریلوے یہ اسکریپ فروخت نہیںکر رہا جو اربوںروپے مالیت کا ہے سفرکے دوران پانی کی فراہمی پرتوجہ نہیں دی جاتی اوردرمیان میں آنے والے اسٹیشنوں پر بھی پانی دستیاب نہیںہوتا۔میری حکومت اور مخیر حضرات سے اپیل ہے۔ کہ مختلف ریلوے اسٹیشن پر پانی کے فلٹر پلانٹ لگائے جائیںنیز موبائلز چارجنگ کے لئے بوتھ لگائیں جائیں۔ مختلف ریلوے اسٹیشن پر ریلوے ملازمین کے مکانات کی خستہ حالت بھی دیکھی۔لانڈھی سے لے کینٹ اسٹیشن تک خوبصورتی کے اضافے کے لئے اچھی قسم کے درخت لگائیں جائیں۔ بلکہ مختلف درخت آکسیجن بھی فراہم کریں گے۔ مختلف ریلوے اسٹیشن پر خانہ بدوش بھی نظر آئے۔ جونہی ٹرین رکتی تو بھیک مانگنے کیلئے بچے آ جاتے تھے۔ ٹرین میںصفائی کے ناقص ترین انتظامات دیکھنے کو ملے۔ دسمبر سے لے کر جنوری تک اضافی ٹرینیں چلائی جائیںبلکہ کرسمس کے موقع پر بھی خصوصی ٹرین چلائی جائے۔            ''کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات''
آخر میںمیری حکومت وقت سے اپیل ہے ریلوے کا وزیرمنتخب کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...