صوبوں میں پانی کی تقسیم اور چولستان کینال

صحرائے چولستان کی آباد کاری کے لیے چولستان کینال کی بازگشت کے ساتھ ہی سندھی قوم پرستوں نے شدت سے اس بات کا واویلا شروع کر دیا ہے کہ چولستان بننے سے سندھ کی دھرتی بنجر ہو جائے گی اور اس کے کھیت کھلیان ویران ہو جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پانی کی تقسیم کے واضح فارمولا کے بعد جس کا تعین 1991ء میں Water Apportionment Accord میں ہو چکا ہے کہ معاہدہ سے پہلے ہر صوبہ کا پانی میں کتنا حصہ ہے، جو ہر صورت میں ملے گا۔ اس کے علاوہ ایک مخصوص ڈیم بننے کے بعد ہر صوبہ کے پانی میں جتنا اضافہ ہونا مقصود تھا، اسے معاہدہ کے پیرا 2 میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سیلابی پانی یعنی فلڈ شیئر ہر صوبہ کے لیے مختص کر دیا گیا جس کے تحت 114.35 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) کے بعد پنجاب اور سندھ کو 37,37 فیصد، خیبر پختونخوا کو 14 فیصد اور بلوچستان کو فلڈ شیئر کا 12 فیصد ملے گا۔ اس واضح فارمولا کے بعد پانی کی تقسیم کے لیے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ اس کے ساتھ ہی معاہدہ کے پیرا 8 اور 14d میں ہر صوبہ کو کلی اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حصہ کے پانی سے متعلق کوئی بھی پراجیکٹ بنا سکتے ہیں یا اپنے منصوبوں میں کوئی بھی تبدیلی کر سکتے ہیں۔ 
Para 8:  There would be no restrictions on the provinces to undertake new projects within their agreed shares.14d:  The provinces have the freedom within their allocations to modify system-wise and period-wise uses.
اتنی واضح تقسیم کے بعد صوبوں میں اختلاف کی کوئی وجہ نظر نہ آنی چاہیے۔ پیرا 8 کے اسی تناظر میں جہلم سے جلال پور کینال منصوبہ شروع کیا گیا اور اسی تناظر میں چولستان کی آبادکاری کے لیے منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے ارسا سے بھی باقاعدہ منظوری لی گئی کہ پنجاب اپنے حصہ کے پانی میں سے چولستان کی آبادکاری کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ واٹر اکارڈ میں واضح طور پر ہر صوبہ کو حق دیدیا گیا ہے کہ وہ اپنے تئیں کوئی بھی منصوبہ اپنے حصہ کے Water Share پر بنا سکتے ہیں۔
 کسی بھی صوبہ کو ارسا کا پلان دینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے اپنے water share کو کس شیڈول کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس واضح تحریر کے بعد پنجاب یا کسی بھی صوبے کو کوئی ضرورت نہ ہے کہ وہ باقاعدہ ارسا یا کسی بھی اتھارٹی سے این او سی کی ڈیمانڈ کرکے اپنے کسی بھی منصوبہ کو منظور کروانے کے لیے درخواست دے۔ سندھ حکومت نے چولستان کینال کے حوالے سے پر زور اختلاف کرتے ہوئے اسے سندھ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے لیکن خود سندھ نے اپنے صوبہ میں 14 نہروں میں سے 10 نہروں کو بغیر کسی منظوری کے ڈیزائن میں تبدیلی کرتے ہوئے وسعت دی۔ ہر صوبہ کا حق ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ اپنے حصہ میں آنے والے ہر طرح کے وسائل کو کس طرح اپنے صوبہ کی بہتری کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی دوسرے صوبے کو قطعاً حق نہیں کہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالے۔ 
پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے۔ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ زرعی ملک کہلانے کے باوجود سالانہ 9/10 ارب ڈالر کی فوڈ پراڈکٹس درآمد کی جا رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پانی کا بے دریغ استعمال ہی نہیں بلکہ برسات کے موسم میں سمندر میں گر کر ضائع ہو جانے والا پانی بھی ہے جسے استعمال کرکے ہم اپنی بنجر زمینوں کو نہ صرف آباد کر کے خوردنی اشیاء میں خود کفالت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر پنجاب یا کوئی بھی صوبہ اپنے حصے کے پانی سے کوئی منصوبہ بنانا چاہتا ہے تو دوسرے صوبے کو مزاحم ہونے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی بلکہ اسے بھی ایسی منصوبے بنانا چاہئیں جس سے وہ اپنے بنجر علاقوں کو آباد کر سکیں۔
 خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان زون کے پانچ اضلاع کی بے آباد زمینوں کو آبادکاری کے لیے پانی چاہیے۔ بلوچستان میں پٹ فیڈر کے وسیع علاقہ کو آبادکاری کے لیے پانی درکار ہے۔ سندھ میں تھر کی مظلوم آبادی کو بھی پانی چاہیے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر سال تھر میں بھوک اور قحط کے ہاتھوں درجنوں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تھر کی پیاسی وادی کو بھی پانی چاہیے۔ ہر صوبے کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے حصہ میں آنے والے پانی کے لیے جامع پلان بنائیں اور پانی سے اپنے علاقوں کے مسائل حل کریں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہر تیسرے چوتھے سال کی اوسط سے سیلابی ریلے ہماری بستیوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔ سینکڑوں معصوم موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور اربوں ڈالر کی معیشت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اسی سیلابی پانی کا استعمال کرکے اپنے سبز معیشت کو کس طرح پروان چڑھایا جا سکتا ہے؟
سندھ سمیت تمام دانشوروں، انجینئروں، ٹیکنوکریٹس اور سیاستدانوں کا فرض ہے کہ پانی ہی نہیں پاکستان کے ہر طرح کے وسائل کو بروئے کار لانے کے پالیسی کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ وطن عزیز کو قدرت کاملہ نے بڑے وسائل سے نوازا ہے۔ انھیں بروئے کار لا کر ہم ایک عشرہ میں دنیا کی بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...