سیاست نئے موڑ پر

آج کل سیاست میں تھوڑا مندا چل رہا ہے۔ سیاسی سٹاک مارکیٹ میں خاموشی ہے، تمام سیاسی جماعتیں نئی سرمایہ کاری کے لیے پر تول رہی ہیں، ہر طرف اضطرابی کیفیت چھائی ہوئی ہے، نئے داؤ پیج استعمال کرنے کے لیے صلاح مشورے ہو رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنوانے کے لیے راستوں کی تلاش میں ہے، ایک طرف حکومت کے سب سے بڑے اتحادی ہیں، کئی کلیدی عہدے بھی انجوائے ہو رہے ہیں لیکن حکومتی کارکردگی کا بوجھ اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ حکومت کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں کس بات کی ٹسل چل رہی ہے۔ دونوں حکومتوں کے وزراء ایک دوسرے پر خوب تنقید کر رہے ہیں اور بظاہر کارکردگی پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم بہتر ہیں۔ حالانکہ اس کے پیچھے حکمت کچھ اور ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں ایک دوسرے پر تنقید کرکے عوام کی توجہ تحریک انصاف سے ہٹانا چاہتی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف سندھ اور پنجاب میں میٹر نہیں کرتی۔ تحریک انصاف صرف خیبر پختون خواہ تک محدود ہو گئی ہے، پنجاب اور سندھ میں تحریک انصاف کے حوالے سے ایک جیسی پالیسی ہے کہ وہاں انھیں کسی قسم کی سرگرمیاں نہیں کرنے دینی۔ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی اجارہ داری مضبوط کرنے کے چکروں میں ہے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اپنا قلعہ مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف ایک عرصہ تک خاموش رہنے کے بعد اب غیر محسوس طریقے سے پنجاب کی سیاست میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ انھیں وفاقی حکومت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں انھیں قومی اور بین الاقوامی امور کا تجربہ ہے لیکن وہ وفاق میں کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے غیر محسوس طریقے سے پنجاب میں اپنی جماعت کو اور اپنی صاحبزادی کی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انھوں نے کچھ عرصہ سے اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ وہ پنجاب میں مسلم لیگ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
 دوسرا انہوں نے مریم نواز کو اپنی سیاسی وراثت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اس کے لیے تمام تر وسائل کے ساتھ مریم نواز کی گرومنگ کی جا رہی ہے۔ آگے چل کر مسلم لیگ ن کی باگ ڈور بھی مریم نواز کے حوالے کر دی جائے گی۔ میاں نواز شریف کی کوشش ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم کرکے مریم نواز کو قابل قبول بنایا جائے۔ اس سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف اب رہبر کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے۔ وہ پنجاب کی سیاست کو زیادہ فوکس کرنا چاہتے ہیں۔ اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقاتوں کے بعد وہ پنجاب کے عہدیداروں اور سیاسی کارکنوں سے بھی ملاقاتوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ازسرنو تنظیم سازی بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کو متحرک کرنے کے لیے تازہ دم خون کو جماعت میں ذمہ داریاں دینا چاہ رہے ہیں تاکہ مریم نواز کے لیے نئی ٹیم تشکیل دی جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی سیاست میں بھی نئی چالیں چلی جا رہی ہیں نئی پیدا شدہ صورتحال میں اپوزیشن جماعتیں بھی نئی صف بندی میں مصروف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ ان کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بن جائے اور تحریک انصاف ان کی ڈائریکشن میں متحدہ جدوجہد کرے جبکہ تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تعطل کے بعد نئے راستے تلاش کر لیے ہیں۔ بظاہر اس وقت تحریک انصاف بے یارومددگار ہے اور اس کی سیاست جمود کا شکار ہے لیکن وہ کئی محاذوں پر رابطوں میں ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تعطل کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس پردہ رابطے چل رہے ہیں۔ بعض بین الاقوامی چینل بھی متحرک ہیں۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ تحریک انصاف کو اندر سے نقصان پہنچایا جائے، اس کو دھڑوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں حکومت کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک عوام تقسیم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بین الاقوامی حالات کے تناظر میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے البتہ ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب ازسرنو فیصلہ کیا جائے گا کہ مستقبل میں کس نے کس کے ساتھ چلنا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...