سیاسی اور معاشی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور پالیسیوں کا تسلسل چلتا رہے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ جس سے معیشت چلتی اور ترقی کرتی ہے۔ لیکن اگر سیاسی عدم استحکام آ جائے ، انتشار کی کیفیت پائی جا رہی ہو تو ترقی کے عمل کا رک جانا فطری امر ہے۔ یہ حالات ہوں تو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آتی بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جس سے ایکسپورٹ میں تو کمی آتی ہی ہے۔ مقامی صنعتوں کی پیداواری صلاحیت بھی بے حد متاثر ہونے لگتی ہے۔ اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے اور عوامی سطح پر بے چینی اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
عام مقولہ ہے کہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے ہی آتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ عمومی خیال تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ اللہ اللہ کر کے یہ بھی ہو گئے لیکن شومئی قسمت کہ سیاسی درجہ حرارت پھر بھی کم نہ ہو سکا۔ پی ٹی آئی فروری 2024ء کے انتخابی نتائج کو کسی طور بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے احتجاج کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ حالیہ مہینوں میں پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی تحریک بھی چلائی۔ اوورسیز پاکستانیوں سے بھی کہا کہ ترسیلات زر نہ بھیجیں۔ سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بھی کیا گیا اور مہم چلائی گئی۔ غرض پی ٹی آئی نے ہر وہ منفی حربہ استعمال کیا جس سے ریاست کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ عزائم یہی تھے کہ کسی طرح پاکستان کی ترقی کے عمل کو روکا جائے۔ اس منفی پروپیگنڈہ مہم میں آئی ایم ایف پروگرام رکوانے کے لیے بھی بہت سے جتن کئے گئے لیکن اْن کی ہر کوشش ، ہر حربہ، ناکام رہا۔ ہر محاذ پر سخت ہزیمت اٹھانا پڑی-
وفاتی حکومت نے معاشی ترقی کے لئے اگرچہ ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کہا کہ پاکستان کی خاطر میثاق معیشت ہونا چاہیے تاکہ باہمی اشتراک سے معاشی خرابیوں کو دور کیا جا سکے۔ اور سیاسی استحکام کے باعث ملک کی معیشت بحال ہو سکے۔ لیکن حکومتی کوششں کے برعکس پی ٹی آئی لیڈر شپ نے اسے انا اور ہٹ دھرمی کا مسئلہ بنا لیا۔ جس سے سیاسی خلفشار میں اضافہ ہوا اور ملک میں اونچے درجے کا سیاسی عدم استحکام پایا جانے لگا۔
سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر جگہ بے یقینی اور بے چینی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا یہی ایک دائمی مسئلہ ہے جس میں ٹھہراؤ کی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ 77 برسوں میں سیاسی ٹھہراؤ صرف اس وقت ہی دیکھا گیا جب ملک میں آمرانہ حکومتیں قائم تھیں۔ سیاسی اور جمہوری ادوار جب بھی آئے سیاسی استحکام دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کبھی اس انداز سے نہیں پنپ سکی جیسے مغرب میں ہم جمہوریت کو پنپتے ہوئے دیکھتے ہیں-
جمہوریت درحقیقت ایک نظام حکومت ہی نہیں، ایک رویے کا نام بھی ہے۔ وہ رویہ جو دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرتا اور اپنے حق کی بات کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت صرف اپنے حق کی بات کرنے کا نام ہے۔ خرابی یہیں سے جنم لیتی ہے کیونکہ اگر ایک دوسرے کے حق کو تسلیم کیا جائے یا کم از کم اختلاف رائے کو ہی ایک دوسرے کا حق مان لیا جائے۔ تو شاید ہم موجودہ سیاسی عدم استحکام سے باہر نکل آئیں۔ جس نے ہمیں کئی دہایئوں سے گھیر رکھا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت مل بیٹھے ۔ ملک کو درپیش بحرانوں کا حل نکالے۔ کسی دوسرے جمہوری ملک میں ایسی صورت حال ہوتی تو شاید وہاں سیاسی قوتوں میں اتنی تقسیم نہ ہوتی۔ جتنی ہمارے ہاں نظر آتی ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنج اس قدر گھمبیر ہیں کہ اکیلی حکومت ان سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ملک میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے-
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت زیادہ نہیں تو صرف چند سالوں کے لیے ہی کسی ایک قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائے کم از کم معیشت کے معاملے پر ایک مربوط قومی پالیسی ضرور ہونی چاہیے تاکہ معیشت کا تسلسل قائم اور جاری رہے-
موجودہ حکومت نے سیاسی اور اقتصادی محاذوں پر بہت سے اچھے کام کئے ہیں۔ دل بڑا کر کے ہمیشہ گفت و شنید کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ مگر پی ٹی آئی نے کبھی اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حال ہی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے تین دور ہوئے لیکن پھر منفی بیان بازی اور کچھ ناروا شرائط کے باعث یہ مذاکرات نہ صرف ختم ہو گئے بلکہ آئندہ بھی ان کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے-
احتجاج اگرچہ ہر سیاسی جماعت کا قانونی حق ہے لیکن اگر اس ’’حق‘‘ کو غلط طریقے سے استعمال کیا جائے۔ احتجاج کی روح کو ہی نہ سمجھا جائے تو یقینی طور پر اس کے برے اثرات ہوں گے۔ پی ٹی آئی نے احتجاج کا جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ احتجاج کے نام پر 9 مئی کو جس طرح کی ایجی ٹیشن ہوئی۔ حساس نوعیت کے مقامات پر جو حملے کئے گئے وہ کسی طرح بھی کسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتے-
ملک میں بے یقینی کی ایسی فضا قائم ہے جس نے ماحول کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پی ٹی آئی ہر ممکن طریقے سے حکومت پر اپنا دباؤ بڑھانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے جبکہ حکومت بھی ہر قیمت پر حکومت کا دورانیہ مکمل کرنا چاہتی ہے۔ اس سیاسی کشمکش کی وجہ سے ملک میں ایک عجیب قسم کی ہیجانی کیفیت ہے۔ آئیڈیل صورت حال تو یہ ہوتی کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھتے اور ملک کے مفاد کے لیے مذاکرات کرتے اور اچھے ماحول میں کسی اچھے نتیجے پر پہنچتے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا جو بدقسمتی کی بات ہے-
بانی پی ٹی آئی ہر قیمت پر چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے آرمی چیف کو یکے بعد دیگرے تین خط لکھے ۔ تاہم آرمی چیف نے ان خطوط کی بابت ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان تک کسی کا خط نہیں پہنچا۔ کوئی خط آیا بھی تو وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھجوا دیں گے۔ آرمی چیف کی یہ گفتگو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ وہ کسی سے بھی سیاسی حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی لیڈرشپ کو اگر کوئی بات کرنی ہے تو یقینی طور پر اسے یہ بات چیت حکومت سے ہی کرنی پڑے گی-
آرمی چیف کی جانب سے بات چیت سے انکار کے بعد اڈیالہ میں اسیر بانی پی ٹی آئی کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ بانی کی جماعت میں بہت سے دھڑے بن چکے ہیں اور اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں۔ وجود میں آنے والے دو دھڑوں میں سے ایک دھڑا وکلاء گروپ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ جبکہ دوسرے گروپ کو سیاسی گروپ کا نام دیا جا رہا ہے۔ ان دونوں گروپوں کے مابین بہت زیادہ چپقلش کی اطلاعات ہیں-
پی ٹی آئی کو بطور سیاسء جماعت جن حالات کا سامنا ہے اْس سے آج ہر شخص اچھی طرح واقف ہے۔ لڑائی جھگڑیٍ آپسی اختلافات اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی حد سے بڑھ گئی ہے اور روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت شدید خلفشار سے گزر رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کی ناکامی کے بعد اب ایک گرینڈ الائنس کے تحت ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ دیکھنے کی بات اب یہ ہو گی کہ مولانا فضل الرحمن اس گرینڈ الائنس کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں؟ مولانا اگر پی ٹی آئی کے ساتھ اس الائنس کا حصہ نہیں بنتے تو قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی ریاست مخالف یہ مہم بھی ناکامی سے دوچار ہو گی۔ سمجھنے اور سمجھانے کی بات صرف یہ ہے کہ ملک میں جس قسم کے حالات ہیں اور اْسے جو معاشی چیلنجز درپیش ہیں، اْس کا تقاضا ہے کہ پی ٹی آئی کسی مہم جوئی سے باز رہے۔ حکومت کے ساتھ سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرے۔ مہم جوئی کر کے بھی اْس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو تجزیہ کاروں کے بقول پی ٹی آئی بحیثیت سیاسی جماعت اپنا قد کاٹھ اور وقار کھو دے گی۔ ملک کا جس قدر معاشی نقصان ہو گا وہ تو ہو گا ہی، خود پی ٹی آئی بھی بہت زیادہ سیاسی نقصان اٹھائے گی۔ جس کی شاید وہ اس وقت متحمل نہیں ہو سکتی۔
٭…٭…٭