صدر ٹرمپ اور غزہ پلان

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے بارے میں متعدد بیانات دیے ہیں جو عالمی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر طویل مدتی کنٹرول حاصل کر کے اس کی تعمیر نو اور ترقی کر سکتا ہے۔ انکے مطابق، اس اقدام سے علاقے میں استحکام آئے گا اور ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ فلسطینیوں کو غزہ چھوڑ کر دیگر ممالک، جیسے اردن اور مصر، میں آباد ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان بیانات پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مسلم ممالک، چین، روس اور یورپی ممالک سمیت دنیا بھر نے ان بیانات کی مذمت کی ہے۔ بعد ازاں، صدر ٹرمپ نے وضاحت کی کہ غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور اس کی تعمیر نو کے منصوبے پر فوری عمل درآمد کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق اردن اور مصر چونکہ امریکہ سے بھاری مالی امداد وصول کر رہے ہیں اس لیے وہ ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کو اپنے ملکوں میں آباد کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ مجموعی طور پر، امریکہ کی حالیہ پالیسی غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے اور اس کی تعمیر نو کے منصوبوں پر مرکوز ہے، جو عالمی برادری میں بحث و مباحثے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ غزہ کی خوبصورت لوکیشن کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک سے افراد اس علاقے میں آباد ہونا پسند کریں گے۔ صدر ٹرمپ چونکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں لہذا ان کو غزا کی سرزمین کی تعمیر و ترقی میں کھربوں ڈالر کی کشش نظر آتی ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ کی سرزمین کو ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سوسائٹی سمجھ رکھا ہے ۔ عالمی قوانین امریکہ کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ غذا کے باسیوں کو بے گھر کر دیا جائے ۔ جس طرح برطانیہ نے 1948ء میں اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطینیوں کی سرزمین پر بسایا تھا امریکہ کے صدر ٹرمپ بھی اسی طرح غزا کو ایک کالونی کی حیثیت دینا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں اقوام متحدہ کو بھی بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ صدرِ ٹرمپ نے وہ امریکی امداد بھی بند کر دی ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک کے دکھی اور مجبور انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کی جارہی تھی پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ کے مضبوط ریاستی ادارے اور ڈیپ سٹیٹ صدر ٹرمپ کے جارحانہ عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ انہوں نے یہ بات تھنک ٹینک "پاکستان فورم" کی ایک خصوصی نشست میں کہی۔ بیگم ماہ ناز رفیع کی زیر صدارت یہ نشست میاں خورشید قصوری کی اقامت گاہ پر منعقد ہوئی جس میرے علاوہ جناب مجیب الرحمان شامی، سعید آسی، سلمان غنی، احمد بلال محبوب، بریگیڈئیر فاروق حمید، ایرج ذکریا، توفیق بٹ اور تنویر شہزاد بھی شریک تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالم اسلام کے ممالک صدر ٹرمپ کی اس شاطرانہ پالیسی کا حصہ بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے اگر انہوں نے نرمی دکھائی تو ان کے اپنے ملکوں کے اندر عوام مشتعل ہو کر ان کے اقتدار کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ پہلے مظلوم اور بے گناہ فلسطینیوں کے گھروں کو وحشیانہ بمباری کر کے تباہ و برباد کر دینا پھر وہاں کے مالکوں کو ان کی سرزمین سے نکال کر ان پرقبضہ کر لینا تاریخ انسانی کا ایک اور تاریک اور سیاہ باب ہو گا جسے عالمی رائے عامہ کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی ۔ صدر ٹرمپ انتہا پسندی کے جس راستے پر چل پڑے ہیں اور پوری دنیا کو للکار رہے ہیں یہ رویہ خود انکے اقتدار کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کے اندر با اثر گروپ اور طاقتیں ان کے خلاف ہیں اگر انہوں نے امریکہ کے زمینی اور معروضی حقائق کو نظر انداز کیا تو خود ان کا اپنا اقتدار، یہاں تک کہ ان کی اپنی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان پر پہلے ہی دو قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں ۔ امریکی تاریخ میں صدر کینیڈی کی پراسرار ہلاکت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
غزہ کا ممکنہ مستقبل کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں سیاسی، عسکری، معاشی اور انسانی صورتحال شامل ہے۔ اگر اسرائیل اپنی حالیہ جارحیت جاری رکھتا ہے تو وہ غزہ پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے، جس کے بعد یا تو براہ راست اسرائیلی انتظام نافذ ہوگا یا کوئی کٹھ پتلی حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس صورت میں فلسطینی مزاحمت برقرار رہ سکتی ہے، اور عالمی سطح پر شدید ردعمل آ سکتا ہے۔اگر عالمی دباؤ بڑھتا ہے تو ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ غزہ کو کسی بین الاقوامی امن فورس کے تحت دے دیا جائے، جس میں عرب ممالک، اقوام متحدہ یا دیگر فریق شامل ہوں۔ اس سے انسانی بحران میں کمی آ سکتی ہے، مگر فلسطینی عوام کے مکمل حقوق کی بحالی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا ۔ اگر فلسطینی مزاحمت اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے تو حماس یا کوئی اور فلسطینی قیادت دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکتی ہے۔ مگر یہ بھی مشروط ہوگا کہ جنگ کے بعد فلسطینی قیادت کو کس حد تک عالمی اور علاقائی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر عالمی برادری اور عرب ممالک فلسطینی کاز کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں تو غزہ اور مغربی کنارے کو ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کی پالیسی اور امریکہ و یورپ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ امکان فی الحال کمزور نظر آتا ہے۔بدترین ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ غزہ میں جنگ، بمباری اور ناکہ بندی جاری رہے، جس سے لاکھوں فلسطینی ہجرت  پر مجبور ہو جائیں اور یہ علاقہ ایک غیر انسانی بحران کی مثال بن جائے۔
اگر مصر، سعودی عرب، قطر اور دیگر عرب ممالک کوئی مضبوط موقف اختیار کرتے ہیں تو وہ کسی سفارتی حل کے ذریعے غزہ کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے لیے بہتر ہو سکتا ہے، مگر اس کا انحصار اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ردعمل پر ہو سکتا ہے ۔ غزہ کا مستقبل کئی عالمی اور علاقائی عناصر سے جڑا ہوا ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت مضبوط رہی اور عالمی برادری نے دباؤ ڈالا تو کوئی مثبت حل نکل سکتا ہے، ورنہ موجودہ صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے نئے وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کے غزہ پلان پر عملدرآمد کرانے کے لیے اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے دورے کا آغاز کر دیا ہے۔ دنیا چونکہ ملٹی پولر بنتی جارہی ہے اس لیے امریکہ کا دنیا میں وہ اثر و رسوخ نہیں رہا جو اسے روس کے ٹوٹنے کے بعد حاصل ہوا تھا اور وہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا ۔ پاکستان کو فلسطین کے مسئلہ پر اپنے روایتی اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے اور دو ریاستی فارمولے پر عملدرآمد کے لیے سفارتی سطح پر کوشش کرنی چاہیے البتہ کسی بھی بلاک کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے اور پوری توجہ سیاسی معاشی استحکام دہشت گردی کے خاتمے امن و امان کے قیام اور گڈ گورننس پر رکھنی چاہیے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...