قدرت اللہ شہاب اپنی تصنیف ‘‘ شہاب نامہ’’ میں صفحہ 889 اور 890 پر لکھتے ہیں کہ ایک دن صدر ایوب اپنی والدہ کو ملنے اپنے آبائی قصبہ ریحانہ گئے تو انکی والدہ نے ان سے تین شکایات کیں۔
پہلی یہ کہ پریذیڈنٹ ہاؤس کی موٹر کاریں جب کسی کام پر گاؤں میں آتی ہیں تو یہاں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر وہ بڑی تیز رفتاری سے چلتی ہیں جس سے لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوتا ہے- دوسری شکایت یہ تھی کہ گاؤں کے کئی لڑکے کالج کی تعلیم ختم کر کے گھروں میں بیکار بیٹھے ہیں، ان کو نوکری کیوں نہیں ملتی؟ اگر نوکری نہیں ملنی تھی تو کالجوں میں پڑھایا کیوں گیا؟
بڑی بی کو تیسری شکایت یہ تھی کہ میری زمین کا پٹواری ہر فصل کے موقع پر پچاس روپے فصلانہ وصول کر کے خوش رہا کرتا تھا، لیکن اب وہ زبردستی سو روپے مانگتا ہے، کہتا ہے کہ تمہارا بیٹا اب پاکستان کا حکمران ہو گیا ہے ، اس لیے پچاس روپے کا نذرانہ بہت کم ہے۔ بڑی بی کو گلہ تھا کہ ایوب خان کی حکومت میں رشوت کا ریٹ ڈبل کیوں ہو گیا ہے ؟ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ پٹواری کے فصلانہ کا نرخ دوگنا ہونے پر صدر ایوب ہنس کر چپ ہو رہے اور کچھ نہ بولے، جسکے ساتھ قدرت اللہ شہاب یہ بھی لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ جیسا جابر و ظالم زمیندار ہو یا صدر ایوب جیسا مطلق العنان سربراہ مملکت ، اپنی اپنی زمینوں کے مقامی پٹواریوں کو وہ دونوں یکساں طور پر خوش رکھنے کے قائل تھے۔
اس تاریخ ساز ماضی کے ساتھ اپنے ایف بی آر کے چیرمین راشد لنگڑیال نے ان دنوں ان روایات سے، جنکے آگے ملک کا طاقتور ملٹری ڈکٹیٹر اور گورنر بھی بے بس نظر آئے، بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے اپنے محکمہ کسٹم میں ٹرانسفارمیشن کے نام پر پہلے مرحلے میں کراچی کی بندرگاہ پر faceless appraisement کی شکل میں ایک نیا نظام متعارف کروانے کا ایک عمل شروع کیا ہے، جسکے بارے میں بقول انکے اس یقین کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سسٹم میں نہ صرف کرپشن میں ملوث کرداروں کا کردارمحدود کیا جا رہا ہے بلکہ مستقبل میں یہ سسٹم کاروباری طبقے کیلئے بیشمار آسانیاں بھی پیدا کریگا جسکی وجہ سے انہیں اپنی درآمدات کی کلیئرنس کیلئے middle man پر، جسے قانون کی نظر میں کلیرنگ ایجنٹ اور کاروباری حلقوں میں بروکر کے نام سے جانا جاتا ہے، انحصار نہیں کرنا پڑے گا اور دوسرا اس سسٹم کی وجہ سے ایک طرف درآمد کنندگان محکمہ کسٹم کے افسران کی بلیک میلنگ اور ڈیمانڈ فار منی سے بچ جائینگے تو دوسری طرف گورنمنٹ کے ریوینو میں خرد بْرد پر بھی بڑی آسانی کے ساتھ قابو پا لیا جائیگا کیونکہ موجودہ سسٹم میں کسٹم افسران کے کردار پر ایسی چیک لگا دی گئی ہیں کہ وہ اب اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال اتنی آسانی سے نہیں کر سکیں گے۔ یہ تو تھا ایک مختصر تعارف جو عام قاری کی آگاہی کیلیئے بہت ضروری تھا۔
یہ خاکسار متعدد بار اپنے کالموں میں اس بات کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ وہ جب بھی کسی حساس موضوع پر لکھتا ہے تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو بات بھی کرے ایک تو وہ زمینی حقائق پر مبنی ہو اور دوسرا اس موقف کو دستیاب دستاویزی اعداد و شمار بھی سپورٹ کرتے ہوں۔ لہٰذا آج بھی راقم کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ اس معاملہ پر بغیر کسی خوف کے کسی کی حْب یا بْغض سے بالا ہو کر غیر جانبداری سے قلم آرائی کرے جسکے جواب میں وہ یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ وہ چئیرمین ایف بی آر جو شہر اقتدار میں اپنے ڈسپلنڈ ایٹیچوڈ پر مبنی سخت گیر موقف ، integrity ، انتظامی صلاحیتوں اور ماضی کی کارکردگی کے حوالے سے بڑی اچھی شہرت رکھتے ہیں، وہ اس کالم میں اْٹھائے گئے نکات جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور جنکا جواب انکی کرپشن فری کمپین کو سچ ثابت کرنے کیلئے بہت ضروری ہے، انکا جواب ضرور دینگے۔
کہتے ہیں جب بھی کوئی کمانڈر کسی جنگ پر نکلتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی مختلف فارمیشنز کا جائزہ لیتا ہے اورہر محاذ کی ہیئت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئیاپنی ٹیم ترتیب دیتا ہے۔ زمینی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موصوف چیرمین صاحب نے بھی اپنی سرجیکل اسٹرائیک سے قبل مختلف افسران کے بارے میں انکی کارکردگی انکی شہرت اور انکے بارے میں انٹیلیجنس رپورٹس کی موجودگی میں انکے پروفائل کو، جو چیرمین صاحب کے ماتحت ممبر کسٹم آپریشن اور چیف مینجمنٹ نے تیار کیئے ہیں، سامنے رکھتے ہوئے غالبا اکتوبر یا نومبر کے مہینے میں ایک جامع آرڈر کے ذریعے محکمہ کسٹم میں ٹرانسفر پوسٹنگز کیں جسکے بارے میں بڑے وثوق سے کہا گیا کہ یہ آرڈرز کسی بھی قسم کی ذاتی پسند، قربت داری یا دباؤ سے پاک خالصتا میرٹ کی بنیاد پر کیئے گئے ہیں۔ لیکن دیکھتی آنکھوں نے دیکھا کہ ان آرڈرز میں جو غالبا جمعہ کے روز ہوئے، اگلے ہی دن اتوار کے روز ایف بی آر کے بند دفتر کو کھلوا کر پوسٹڈ تین ایڈیشنل کلکٹرز کو کراچی پورٹس سے ایف بی آر میں واپس بلوایا گیا۔ پیکا ایکٹ کی وجہ سے یہاں پر خاکسار اپنی طرف سے انکی شہرت یا کارکردگی کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھے گا لیکن چیرمین صاحب آپ ان نکات سے اچھی طرح واقف ہیں جو ان آرڈرز کے اگلے ہی دن فنانس منسٹری کی ایک میٹنگ میں آپکے علم میں لائے گئے جس پر آپ نے فورا ان افسران کو ایف بی آر ہیڈکوارٹر بلوایا۔ اور راقم اس خواہش کا اظہار بھی کریگا کہ آپ قارئین اور جنرل پبلک کی آگاہی کیلئے وہ حقیقت بیان کریں جو ان تین بندوں کے آرڈرز کا سبب بنی ورنہ اس سوال سے صرف نظر اور کئی سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جگہ کی بندش کی وجہ سے اس کھلے خط کا باقی حصہ انشاء اللہ اگلے کالم میں۔
٭…٭…٭