بدھ‘  20  شعبان المعظم 1446ھ ‘  19  فروری 2025 ء

صدر بلاول کو شیروانی پہنانا چاہتے ہیں‘ بیرسٹر سیف‘ شہبازشریف بوریا بستر باندھ لیں۔ 
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی والے بھی پیپلزپارٹی کی ہمدردی میں بلاول کو وزیراعظم بنانے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ کایا کلپ نہیں تو کیا ہے۔ مسلم لیگ نون ہو یا پیپلزپارٹی دونوں اتحادی ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی وزیراعظم آتا ہے‘ آئے یا نہ آئے‘ پی ٹی آئی کو تب بھی چودھری بننا نصیب نہیں ہوگا۔ جب تک یہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی والوں کی خواہش کے مطابق نیست و نابود نہ ہو جائیں۔ اب ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ ہاں البتہ بددعا دینے والے کب باز آتے ہیں۔ اب خیبر پی کے کے ترجمان کی اس بات کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صدر چاہتے ہیں انکے فرزند جلد شادی والی شیروانی پہن لیں۔ باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا جوان بیٹا جلد سہرا باندھ کر شیروانی پہن کر دولہا بنے اور اسکے گھر میں بھی رونق لگے اور پوتے پوتیاں کلکاریاں مارتے نظر آئیں۔ ویسے بھی بلاول ابھی نوجوان تو رہے نہیں‘ 35 کے ہو گئے ہیں خیر سے۔ اب 40 سال کی عمر میں شادی تو بہرحال لیٹ ہی کہلاتی ہے۔ جب خوشحالی ہو مالی وسائل بھی بے تحاشہ ہوں‘ تو پھر شادی میں تاخیر کیوں۔ ویسے بھی لوگ ہوں نہ ہوں‘ پارٹی والے انکی مہندی پر ڈھولک بجانے اور نکاح پر چھوہارے بانٹنے اور بارات میں لڈیاں ڈالنے کیلئے بے چین ہیں تاکہ پھر جلد ہی ’’اسی بال کھیڈائیے بلاول دے‘‘ والا ترانہ بھی بنا سکیں۔ اس لئے بیرسٹر سیف کو اس بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جذباتی ہو کر وزیراعظم کو حکومت چھوڑنے کا مشورہ دینے لگیں۔ ابھی ایسی آفت نہیں آئی کہ وہ کہیں جانے کا سوچیں‘ ہاں البتہ غیرملکی دوروں پر جا سکتے ہیں جس کیلئے بوریا بستر باندھنے کی ضرورت نہیں۔ 
جنہیں منظور نہیں‘ لکھ کر دیں‘ انکی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا‘ وزیر قانون۔
شکر ہے سیاسی اختلافات کی وجہ سے ہی سہی‘ اپوزیشن والوں نے سینٹ میں، قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی شدید مخالف کی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی ارکان کے ساتھ ملکر وہ یہ بل قومی اسمبلی میں منظور کرا چکی ہے۔یعنی اب ہمارے کم تنخواہ دار ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کرتے کچھ نہیں معاوضہ لاکھوں میں لیتے ہیں۔ اگر صرف ایوان میں آکر تماشائی بن کر بیٹھنا ہی انکی ذمہ داری ہے تو یہ کام کوئی ریڑھی والا‘ تانگے والا‘ موچی‘ قصائی یا پھیری لگانے والا بھی کر سکتا ہے۔ بت بن کر ایک دو گھنٹے ٹھنڈے ٹھار یا گرما گرم ایوان میں بیٹھ سکتا ہے۔ اس شورشرابے میں وزیر قانون نے کیا جملہ کہا کہ جس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان اسمبلی آزمائش میں پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو ارکان تنخواہ میں اضافہ نہیں چاہتے وہ لکھ کر دیں‘ انکی تنخواہ نہیں بڑھائی جائیگی۔ یہ کیا بات ہوئی۔ کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں کر سکتا جو یہ کرے گا وہ عوام کا حقیقی نمائندہ ہوگا ورنہ یہ سب مفت بر‘ بیروزگار یہ اضافی تنخواہ وصول کرکے پھولے نہیں سمائیں گے۔ معلوم نہیں یہ اضافہ اعلیٰ کارکردگی پر کیا گیا ہے یا کچھ نہ کرنے پر کیا گیا ہے۔ کیا ہمارے ان رہنمائوں کو کچھ احساس نہیں کہ روزگار اور تنخواہوں میں اضافے کا حق ان کروڑوں پاکستانیوں کا ہے جو دو وقت کی روٹی خریدنے سے محروم ہو رہے ہیں۔ خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں۔ یہ سب ارکان انہی کو سبزباغ دکھا کر انہی کے ووٹوں سے انکے مسائل حل کرنے کے نام پر اس ایوان میں آتے ہیں اور یہاں آکر اپنی جیب بھرنے کے مشن پر کام کرتے ہیں۔ غریب جائیں بھاڑ میں۔ ان کو پھر بے وقوف بنا کر یہ اگلے الیکشن میں ووٹ مانگنے آجائیں گے اور پھر جھوٹ کہیں گے ہم آپ کے روز گار اور آمدنی میں اضافے کیلئے کام کرینگے۔ 
امریکی نائب صدر کی یورپی ممالک پر تنقید‘ حکمران ووٹروں سے ڈرتے ہیں۔ 
جیسی روح‘ ویسے فرشتے۔ جیسا راجہ ویسی پرجا۔ اس وقت امریکہ پر ٹرمپ کی جسمانی اور روحانی ظاہری و پوشیدہ طاقت اور نظریات کی حکمرانی ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انکے جو نورتن کابینہ میں شامل ہیں‘ وہ انہی کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جسے دیکھو‘ آنکھیں دکھاتا ہے اور پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے پوری حکومت ہی عقل و شعور سے عاری ہے‘ صرف اپنی طاقت اور من مانی ہر جگہ دکھاتے پھرتے ہیں۔ گزشتہ روزجرمنی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر کو تو جیسے موقع مل گیا اور وہ یورپ والوں پر برس پڑے۔ انہیں بزدل تک کہہ دیا۔ انکے حکمرانوں کو کہا کہ وہ ووٹروں سے ڈرتے ہیں۔ بھلا یہ کونسی بری بات ہے۔ یہ تو اچھا ہے کہ جمہوری ممالک کے حکمران عوام سے ڈرتے ہیں۔ یہ ذرا ان ممالک سے پوچھیں جہاں کے حکمران مطلق العنان ہوتے ہیں‘ نہ انہیں عوام کی فکر ہوتی ہے نہ ملک کی پرواہ۔ لگتا ہے اب امریکہ بھی ٹرمپ کی مطلق العنانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر چونکہ وہ ایک بڑے رقبہ اور آبادی والا ملک ہے اس لئے شاید یہ تجربہ کامیاب نہ ہو۔ وہاں بھی بہرحال عوام کا مزاج جمہوری ہے۔ اب سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جن ممالک میں غیرجمہوری حکومتیں قائم ہوتی ہیں‘ امریکہ ہمیشہ انکی حمایت کیوں کرتا ہے۔ غالباً خود امریکی بھی آمریت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ اب تو دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں بھی ایک جابرانہ اور آمرانہ حکومت کو پسند کرنے لگے ہیں۔ جو مغرب کے ڈرم سے باہر نکلے ہوئے چوہے کی طرح ہر طرف ڈولتا گرتا پھرے اور جو بھی سامنے آئے اس کو للکارتا رہے۔ گویا غیرجمہوری طرز عمل امریکیوں کے لاشعور میں چھپا ہوا رہتا ہے جو آہستہ آہستہ کبھی کبھی سامنے آتا ہے تو دنیا حیران ہو جاتی ہے۔ جیسے اب یورپ والے ہو رہے ہیں جنہیں امریکی نائب صدر نے لتاڑا ہے‘ وہ بھی انہی کے درمیان کھڑے ہو کر۔ 
عمرہ کی آڑ میں جبری مشقت کے لئے خواتین سمگل کرنے والا گینگ گرفتار سابق خاتون پولیس اہلکار بھی شامل۔
اب شاید یہی ایک کام رہ گیا تھا کرنے والا جو کرکے ہم اپنے ملک کی نیک نامی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ منشیات فروش‘ چور‘ بھکاری مافیا کے بعد اب عورتوں کو عرب ممالک میں سمگل کرنے والے اس نیٹ ورک کے بے نقاب ہونے سے پتہ چلا ہے کہ یہ کام ایک سابق خاتون پولیس اہلکار آسیہ کی توسط سے ہو رہا تھا اور گزشتہ دنوں چار خواتین کو جبری مشقت کے لئے عمرہ کی آڑ میں سعودی عرب سمگل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی اور انہیں ایئرپورٹ پر ہی روک لیا گیا۔ ہم پیسوں کے لالچ میں سب کچھ بھول جاتے ہیں‘ جبھی تو گزشتہ ماہ ایک غیرمسلم عورت کو عمرہ پر جاتے ہوئے پکڑا گیا جو مافیا کی مدد سے دراصل سعودی عرب میں بھیک مانگنے جا رہی تھی۔ اب یہ شور تھما نہیں تھا کہ عورتوں کی ایک کھیپ سمگل ہوتے دھرلی گئی۔ یہ کس مقصد کیلئے عرب ممالک جا رہی تھیں‘ اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ اسے جبری مشقت کہا گیا ہے اب اور کون سی ذلت رہ گئی ہے اپنے منہ پر ملنے کیلئے کہ اب ایک سابق پولیس والی یعنی اہلکار کسی گینگ کے ساتھ مل کرکام کر رہی ہے۔ اب پولیس سے زیادہ کون ایسے اڈوں سے واقف ہوگا جہاں ایسے غیرقانونی کام ہوتے ہیں اور با ہر سمگل ہونے کیلئے خواتین دستیاب ہوتی ہیں جبھی تو یہ کام اس پولیس والی کے سپرد کیا گیا تھا یا وہ خود کر رہی تھی۔ بہرحال اب یہ لوگ اور سمگل ہونے والی عورتیں پولیس کی تحویل میں ہیں‘ شکر کریں یہاں قابو میں آگئیں۔ ورنہ عرب ممالک میں انہیں کڑی سزا اور قید ہوتی‘ چاہے غیرقانونی طور پر داخلہ پر ہی کیوں نہ ہو۔ اب اس گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ مزید بدنامی نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...