وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرضوں کی بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری ہماری ترجیح ہے۔وفد کے شرکاء نے پاکستان کے جاری اصلاحاتی پروگرام پر عملدرآمد کی تعریف کی اور کہا کہ حکومت کے جاری اصلاحات کے پروگرام کے مثبت نتائج موصول ہو رہے ہیں جو خوش آئند امر ہے۔ وزیرِاعظم کی قیادت میں پاکستان کی معاشی اصلاحات کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ وفد نے حکومت کے توانائی، صنعت و برآمدات، نجکاری، محصولات و دیگر شعبوں میں اصلاحاتی اقدامات کو سراہا۔ ورلڈ بینک کے 9 ایگزیکٹو ڈائریکٹرز پاکستان کے دورے پر ہیں اور وہ ورلڈ بینک میں دنیا کے مختلف ممالک کے پورٹ فولیو کے نگران ہیں۔
وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی جانب سے عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے وفد سے ملاقات میں ملکی معیشت، جاری اصلاحاتی عمل اور سرمایہ کاری کے فروغ کے حوالے سے اہم نکات پر گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کی ترجیح قرضوں کے حصول کے بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری ہے، اور ادارہ جاتی و معاشی اصلاحات کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ عالمی بینک کے تعاون سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ بھی ایک خوش آئند خبر ہے، جس میں 20 ارب ڈالر سماجی شعبوں جبکہ 20 ارب ڈالر نجی شعبے کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ اقدامات معاشی استحکام کے لیے بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہیں۔ وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے، اور شرح سود میں کمی کے باعث سرمایہ کاری کے مواقع میں بہتری آ رہی ہے۔ علاوہ ازیں، بجلی کے شعبے میں اصلاحات، شفافیت کے فروغ اور کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔
عالمی بینک گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ 2022ء کے سیلاب کے دوران بھی عالمی بینک نے متاثرہ افراد کی بھرپور معاونت کی، جس کی وزیراعظم نے خاص طور پر ستائش کی۔ حالیہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (CPF) کے تحت پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک امید افزا قدم ہے، جس سے تعلیم، صحت، نوجوانوں کی ترقی اور دیگر سماجی شعبوں میں بہتری متوقع ہے۔تاہم، یہ سرمایہ کاری اور اصلاحات اسی وقت ثمر آور ثابت ہوں گی جب ان کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ نجی شعبے میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یقیناً اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لانے کا سبب بنے گی، لیکن اس کے لیے پالیسیوں کا تسلسل، شفافیت اور سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنا ناگزیر ہوگا۔
اگرچہ حکومت کی معاشی اصلاحات کی سمت درست دکھائی دیتی ہے اور وزیراعظم نے مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آنے کی نوید بھی سنائی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی۔ روزمرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ اور قوتِ خرید میں کمی اب بھی عوام کی مشکلات کو بڑھا رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں جبکہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل منظور ہونا عوامی سطح پر ایک منفی تاثر پیدا کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عام آدمی ریلیف کی امید لگائے بیٹھا ہے، عوامی نمائندوں کی تنخواہیں 2 لاکھ 18 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار کرنا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا یہی وقت تھا ایسے فیصلوں کے لیے؟ عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر حکومتی نمائندے اپنی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دیتے ہیں تو انہیں عوام کو بھی اسی تناسب سے ریلیف فراہم کرنا چاہیے۔اس تناسب سے عوام کو ریلیف فراہم کرنا سردست حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے تاہم کچھ نہ کچھ تو عوام کے لیے کیا ہی جا سکتا ہے۔وہ بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن معاشی تباہی مہنگائی بدتمیزی’’ تبدیلی ‘‘کی سوغاتیں ہیں۔ ان کا اشارہ آج کی اپوزیشن جماعت کی طرف ہے جو اپریل 2022ء تک پونے چار سال اقتدار میں رہی تھی۔ماضی کے ماتم کی بجائے اب نئی سوچ اور نئے عزم و ارادے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے خود انحصاری کی طرف سفر کے آغاز کا عہد کیا ہے۔ اشرافیہ کی طرف سے قربانی دی جائے تو یہ سفر جلدکامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
معاشی استحکام کے لیے سرمایہ کاری، برآمدات میں اضافہ، اور صنعتی و زرعی شعبوں کی ترقی ناگزیر ہے۔ تاہم، یہ ترقی اسی وقت پائیدار ثابت ہو گی جب اس کے فوائد عوام کی زندگیوں میں بہتری کی صورت میں نظر آئیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی میں کمی کے دعوؤں کو عملی شکل دے اور عام آدمی کے لیے ریلیف پیکجز، روزگار کے مواقع اور سماجی تحفظ کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دے۔
سیاسی جھگڑوں اور عدم استحکام سے نکل کر معاشی ترقی کی راہ میں یکجہتی اور تسلسل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ’’قرضوں کے بجائے سرمایہ کاری‘‘ کی پالیسی ایک مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس پالیسی کے تحت حاصل ہونے والے فوائد کو نچلی سطح تک پہنچانے کے لیے جامع اور مستقل حکمت عملی اپنانا ہو گی۔حکومت اگر واقعی معاشی بہتری کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی تو نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا، اور پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔