امریکہ میں کئی برسوں سے آباد خوش حال پاکستانیوں کی یہ امید جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ ہوتے ہوئے دنیا کی واحد سپرطاقت کے دبائو سے ہمارے ملک میں ’’خالص جمہوریت‘‘ بحال کروائی جاسکتی ہے۔ بات اگرچہ اب بحالی جمہوریت تک ہی محدود نہیں رہی۔ امید بلکہ یہ بھی باندھی جارہی ہے کہ امریکہ کے ’’جمہوریت نواز‘‘ اراکین پارلیمان کی کاوشوں سے ہماری ریاست کے طاقتور مگر ’’جمہوریت دشمن‘‘ عہدے داروں کو ’’پابندیوں‘‘ کی زد میں لایاجاسکتا ہے۔ وہ اپنی ذات اور اولاد کے لئے امریکی ویزے حاصل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ نہ ہی وہاں کوئی جائیداد خریدنے کے اہل۔امریکی بینکوں میں جمع ہوئی ایسے افراد کی دولت بھی منجمد کروائی جاسکتی ہے۔
پاکستان سے کئی برس قبل امریکہ پہنچ کر وہاں آباد ہوئے میرے ہم وطنوں کو ایسے خواب دکھانے میں امریکی کانگریس کا ایک رکن جو ولسن بہت نمایاں ہے۔ موصوف کا تعلق ریاست جنوبی کرولینا کے شہر شارلٹ سے ہے۔ ہمارے برادر ملک چین کا کٹر دشمن ہے۔ حقارت سے چین نہیں بلکہ ’’چائینز کمیونسٹ پارٹی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے وہ درحقیقت چین کو ایسا ملک دکھانے کی کوشش کرتا ہے جو ایک آمرا نہ جماعت کے ’’قبضے‘‘ میں ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو جو اقتصادی اعتبار سے امریکہ کو کئی میدانوں میں پچھاڑے چلاجارہا ہے ’’ایک سیاسی جماعت سے آزادی دلوانا‘‘ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دورِ حاضر کا ’’فرہاد‘‘ ہوا جوولسن مگر چینی کمیونسٹ پارٹی کو تباہ کرنے کی کاوش ہی نہیں کررہا اسے جارجیا، تیونس اور اب پاکستان میں بھی ’’جمہوریت‘‘ بحال کروانی ہے۔ ایران سے بھی اس کانگریس مین کو شدید نفرت ہے۔ چین کے علاوہ کم از کم چار دیگر ممالک کے عوام کی ’’آزادی‘‘ کو بے چین جوولسن مگر ایک بڑھک باز کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ہماری پارلیمان کی طرح امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں بھی کوئی قانون نجی حیثیت میں پیش کرنے کے بعد منظور کروانا دشوار ترین عمل ہے۔ کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں۔معاملہ جب کسی دوسرے ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا ہو تو انفرادی کاوش مزید کمزور ہوجاتی ہے۔ امریکہ ویسے بھی دیگر ملکوں میں اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو سازشوں اور بسااوقات براہ راست مداخلت سے تبدیل کرنے کا عادی رہا ہے۔ ایسے فیصلے انفرادی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے خطے کے تناظر میں اس نے 1950ء کی دہائی میں برطانیہ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر مصدق کی ایرانی عوام کی اکثریت کے ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومت کا سازشی مداخلت سے تختہ الٹایا تھا۔ قوم پرست ڈاکٹر مصدق کو ہٹا کرایران رضا شاہ پہلوی کی ’’شہنشاہیت‘‘ کے حوالے کردیا گیا۔ وہ ایرانی تاریخ کا بدترین آمر تھا جس کی انٹیلی جنس ایجنسی -ساواک- شہریوں کے لئے دہائیوں تک خوف کی علامت رہی۔ ایرانی عوام کو آزدی کا سانس لینے کے لئے 1979ء کی فروری تک انتظار کرنا پڑا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا تو شاہی خاندان سمیت ان کے ریاستی معاونین کی بے پناہ تعداد ایران سے فرار ہوکر یورپ اور امریکہ چلی گئی۔ امریکہ نے فراخ دلی سے جمہوریت کے ان بدترین دشمنوں کو اپنے ہاں آباد کیا۔ لاطینی امریکہ کے ملک چلی کے مقبول صدر آلاندے بھی امریکی پشت پناہی کی وجہ سے قتل ہوئے تھے۔ ان کی جگہ لینے والے سفاک فوجی آمر -پنوشے- کو دو سے زیادہ دہائیوں تک امریکہ کی تھپکی میسر رہی۔ پاکستان کا ذکر ہو تو امریکہ کی ایوب خان، جنرل ضیاء اور مشرف سے محبتوں کو میری نسل نے روزانہ کی بنیاد پر بھگتا ہے۔
امریکہ میں مقیم نیک دل عاشقان عمران خان مگر اس گمان میں مبتلا ہیں کہ امریکہ بدل گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہے۔ اپنے لوگوں کی ترقی وخوشحالی کا خواہش مند ا مریکہ کو دوبارہ ’’گریٹ‘‘ بنانا چاہتا ہے۔ وہ سیاست میں عمران خان ہی کی طرح نووارد تھا۔ 2016ء میں وائٹ ہائوس پہنچا تو بتدریج نظام حکومت چلاتے ہوئے ’’دریافت‘‘ کیا کہ امریکہ میں اصل حکومت تو ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کی ہے۔ ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ سے قبل ا مریکہ کے ترقی پسند حلقوں میں ’’ملٹری انڈسٹری کمپلکس‘‘ کا بہت ذکر ہوتا تھا۔ اس کی بدولت طے یہ ہوا کہ روس کی قیادت میں قائم ہوئے ’’کمیونسٹ بلاک‘‘ کو نظریاتی ہی نہیں بلکہ فوجی اعتبار سے بھی تباہ وبرباد کردیا جائے گا۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے امریکہ میں ان صنعتوں کی بے پناہ ریاستی رقوم کے ذریعے سرپرستی ہوئی جو جدید ترین مہلک ہتھیار تیار کرنے کے لئے وقف تھیں۔ جدید ترین ہتھیار جب تیار ہوجائیں تو انہیں ’’ٹیسٹ‘‘ (Test)کرنے کے لئے دیگر ممالک پر جنگیں مسلط کرنا بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ رواں صدی کے آغاز میں افغانستان اور عراق پر ایسی ہی جنگیں مسلط ہوئیں۔ جدید ترین ہتھیار استعمال تو ہوگئے مگر افغانستان اور عراق اربوں ڈالر کے زیاں کے باوجود ’’جمہوری مملکتوں‘‘ کی صورت اختیار نہیں کر پائے۔ دونوں ممالک میں غیر ملکی مداخلت بلکہ داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں پیدا کرنے کا سبب ہوئی۔ وحشیانہ لگن کے ساتھ یہ اپنی پسند کا ’’اسلام‘‘ نافذ کرنا چاہ رہی ہیں۔ کامل ابتری اور خلفشار کے سوا مگر کچھ حاصل نہیں کر پائیں۔
میرے سادہ لوح ہم وطن تاہم یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ کاروباری شخص ہوتے ہوئے ٹرمپ اپنے ہاں کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ سے لڑتے ہوئے پاکستان جیسے ملکوں کی رعایا کو بھی جمہوری حقوق سے مالا مال کردے گا۔ ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ حتمی مقصد اس کا فقط امریکہ کو ’’ایک بار پھر عظیم‘‘بنانا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے وہ قطعاََ غیر نظریاتی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یو کرین کو قربان کرتے ہوئے روس کے صدر کے ساتھ صلح کو بے قرار بھی۔ غزہ کے حوالے سے وہ اسرائیل کے صیہونی انتہا پسندوں سے بھی دو قدم آگے جاچکا ہے۔ نہایت ڈھٹائی سے دہرائے چلے جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دائمی امن اسی صورت قائم ہوسکتا ہے اگر نسلوں سے غزہ میں آباد فلسطینی سمندر کے کنارے موجود اس پٹی سے نکل کر دوسرے ملکوں میں منتقل ہوجائیں۔ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانا اس کی دانست میں امن کی ضمانت ہے۔ ایسے شخص سے پاکستان میں ’’خالص جمہوریت‘‘ بحال کرنے کے لئے مدد طلب کرنے سے پہلے کم از کم میں تو سوبار سوچوں گا۔